کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 22
حکم جس طرح اپنے نزول کے پہلے دن واجب التنفیذ تھا، آج بھی ہے اور قیامت تک واجب التنفیذ رہے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت بھی باقی ہے اور باقی رہے گی، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے آپ کی حدیث یا سنت دینی مرجع ہے اور ہر مختلف فیہ اور متنازع فیہ مسئلہ میں قرآن کی طرح حدیث یا سنت سے رجوع کرنا فرض ہے، اس سے یہ بھی لازم آیا کہ قرآن کی طرح حدیث بھی محفوظ ہو، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل بالذات اور غیر مشروط اطاعت، اتباع اور اقتدا اور آپ کو نمونہ عمل بنانے کا حکم الٰہی ناقابل عمل قرار پائے گا۔
یہ تو ایک اصولی بات تھی، رہی حدیث یا سنت کی عملی حفاظت تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے مسلمانوں نے حدیث کی حفاظت اور اس کی تبلیغ و ترویج کے ساتھ جو اہتمام برتا وہ کتاب اللہ کی حفاظت اور اس کی تبلیغ و ترویج کے ساتھ اہتمام سے کم نہیں ، بلکہ بہت زیادہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی قولی یا فعلی حدیث یا آپ کی سیرت پاک کا کوئی بھی واقعہ ایسا نہیں ہے جو ریکارڈ میں نہ ہو، اگرچہ حدیث کے محفوظ ہونے کا نہ یہ مطلب ہے اور نہ ضروری کہ وہ بھی قرآن کی طرح کسی کتاب میں از اول تا آخر مکمل ترتیب کے ساتھ محفوظ ہو، کیونکہ قرآن کتاب ہدایت بھی ہے اور کتاب تلاوت بھی اور سورئہ فاتحہ سے لے کر سورئہ ناس تک اس کی تمام آیتوں اور سورتوں میں ربط و ترتیب ہے، جبکہ حدیث ماخذ رشد وہدایت اور ماخذ شریعت تو ہے اور اللہ تعالیٰ کے بنانے سے ہے، لیکن کتاب تلاوت سے عبارت نہیں ہے۔
میں نے جو یہ کہا ہے کہ حدیث اللہ تعالیٰ کے بنانے سے ماخذ رشد وہدایت اور ماخذ شریعت ہے تو میری اس بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مبارک ہے:
﴿وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ﴾ (النسآء: ۱۱۳)
’’اور اللہ نے تمہارے اوپر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھایا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘
یہ آیت یہ بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو چیزیں نازل فرمائی ہیں : (۱) کتاب۔ (۲)حکمت۔
جن مفسرین نے کتاب پر معطوف حکمت کو فہم، علم اور اصابت قول ورائے قرار دیا ہے وہ فعل ’’أنزل‘‘ سے بے جوڑ ہے، پھر جن دوسری آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو کتاب پر عطف کر کے استعمال کیا ہے ان آیتوں کے مضامین حکمت سے فہم، علم اور اصابت قول ورائے مراد لینے میں مانع ہیں ، مثلاً: سورئہ بقرہ کی آیات ۱۲۹، ۱۵۱، سورئہ آل عمران آیت ۱۲۴ اور سورئہ جمعہ آیت ۲ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض رسالت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان میں حکمت کو کتاب پر عطف کر کے استعمال کیا گیا ہے اور ہر جگہ وہ کتاب کی طرح ’’تعلیم‘‘ کا مفعول بہ ہے، لہٰذا یہ کتاب کے علاوہ ہے اور ایسی چیز ہے جو قابل تعلیم ہو، جبکہ فہم اور اصابت رائے وغیرہ قابل تعلیم چیز نہیں ہے، بلکہ عطیہ الٰہی ہے۔[1]
[1] بخاری: ۱۱۱، مسلم: ۱۳۷۰