کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 218
جیسی بلند قامت خاتون کے دونوں حدیثوں کو قرآن سے متعارض پانے کی بنیاد پر ان کو قرآن کے خلاف نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ انہوں نے جو کچھ فرمایا ہے وہ فکر و اجتہاد کی روشنی میں اور فکر و اجتہاد میں بڑے سے بڑے انسان سے غلطی ہو سکتی ہے اور ہوئی ہے، خود ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی ہے تو پھر دوسرے کس شمار میں جیسا کہ اس مسئلہ کی وضاحت اپنے مناسب مقام پر آ رہی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے راوی قتادہ بن دعامہ بن قتادہ سدوسی نے جو یہ فرمایا ہے کہ: اللہ نے ان کو زندگی بخش دی تھی تاکہ ان کی سرزنش، ان کی تذلیل، ان کی پاداش عمل اور ان کی حسرت و ندامت کو فزوں تر کرنے کے لیے آپ کی باتیں ان کو سنوا دے‘‘ اس پر تعقیب کرتے ہوئے شیخ غزالی نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’روایت اس دفاع کی محتاج نہیں تھی؛ مردے معدوم نہیں ہوتے اور نبوت کی آواز ان تک ’’سجین‘‘ میں بھی پہنچ سکتی ہے، لیکن عائشہ کسی ایسی بات کو قبول نہیں کر سکتی تھیں جو اپنے ظاہری الفاظ میں قرآن کے الفاظ کے خلاف ہو، اور مردے عام طور پر نہ بولتے ہیں اور نہ سنتے ہیں اور اللہ جو بات چاہے اس کے علم سے ان کو بہرہ ور کر سکتا ہے، اور جب ان کو علم ہو گیا تو گویا انہوں نے اسے سن لیا، اس طرح ’’عبارت‘‘ مجاز کے طور پر مقبول ہے۔‘‘ موصوف کی اس عبارت پر میرا تبصرہ یہ ہے کہ جہاں تک قتادہ کے قول کا مسئلہ ہے تو یہ انہوں نے روایت کے دفاع میں نہیں اس کی تشریح و تفسیر میں فرمایا تھا، کیونکہ مردہ باہر کی باتیں اسی وقت سن سکتا ہے جب اس کے جسم میں روح واپس کر دی گئی ہو ان کے علم میں وہ صحیح حدیثیں رہی ہوں گی جن میں مردوں کے دفن کر دئیے جانے کے بعد فرشتوں کی آمد اور مردوں سے ان کے سوال کے موقع پر ان کے جسموں میں ان کی روحوں کے واپس کر دئیے جانے کی خبر دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ قتادہ نادر المثال قوت حافظ کے مالک تھے اور جو بات ایک بار سن لیتے وہ ان کی لوح قلب پر نقش ہو جاتی۔ رہا آپ کا یہ فرمانا کہ ’’مردے معدوم نہیں ہوتے اور نبوت کی آواز ان تک سجین میں بھی پہنچ سکتی ہے‘‘ سو فیصد درست ہے، لیکن آپ کا یہ ارشاد: مردے عام طور پر نہ بولتے ہیں اور نہ سنتے ہیں ، اور اللہ جو بات چاہے اس کے علم سے ان کو بہرہ ور کر سکتا ہے اور جب ان کو علم ہو گیا تو گویا انہوں نے اسے سن لیا، اس طرح عبارت مجاز کے طور پر مقبول ہے‘‘ صحیح بات سے غلط نتیجہ اخذ کرنے سے عبارت ہے: اللہ تعالیٰ قانون طبیعی کا پابند نہیں ہے وہ مردوں کے جسموں میں بھی قوت سماع اور قوت گویائی پیدا کر سکتا ہے، لہٰذا معتزلہ کے طرز پر سماع کو علم پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں تھی، سماع ذریعۂ علم ہے اور علم نتیجۂ سماع، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے آیت قرآنی: ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی ﴾ اور حدیث: ((انھم الان یسمعون ما أقول)) میں سماع سے کانوں سے سننا ہی سمجھا تھا اور مراد لیا تھا، کیونکہ وہ زبان داں تھیں اور ان کی ذات معتزلہ کی تحریف و تاویل کی صفت سے پاک تھی اور اس زمانے میں لوگ حقیقت اور مجاز اور ظاہر و باطن کی تعبیروں سے واقف نہیں ہوئے تھے یہ تو منکرین حق کے اسالیب ہیں ، اگر ام المؤمنین نے سماع سے مجازاً ’’علم‘‘ سمجھا ہوتا تو پھر تو کوئی