کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 216
کر دی۔ قتادہ نے پہلی روایت کو بیان کرتے ہوئے اور اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا: اللہ نے ان کی سرزنش اور ان کی تحقیر کی غرض سے ان کو زندہ کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ان کو سنا دی۔‘‘ ’’میرے خیال میں پہلی روایت اس دفاع کی محتاج نہیں تھی؛ مردے معدوم نہیں ہوتے اور نبوت کی آواز ان تک ’’سجین‘‘ میں بھی پہنچ سکتی ہے، لیکن عائشہ کسی ایسی بات کو قبول نہیں کر سکتی تھیں جو اپنے ظاہری الفاظ میں قرآن کے الفاظ کے خلاف ہو اور مردے عام طور پر نہ بولتے ہیں اور نہ سنتے ہیں ، اور اللہ جو بات چاہے اس کے علم سے ان کو بہرہ ور کر سکتا ہے، اور جب ان کو علم ہو گیا تو گویا انہوں نے اسے سن لیا اس طرح عبارت ’’مجاز‘‘ کے طور پر مقبول ہے۔‘‘ ’’ہم جس چیز کے خواہش مند ہیں وہ یہ کہ ہم قرآن کے الفاظ و معانی کی طرف حد درجہ توجہ دیں ، جن سے علمائے حدیث کی بہت بڑی تعداد غفلت اور پردے میں ہے اور ایسے امور میں منہمک ہے جنہوں نے اس کو وحی الٰہی کے پی لینے سے عاجز و قاصر بنا رکھا ہے۔‘‘ ’’اہل تحقیق فقہاء کا یہ معمول رہا ہے کہ جب وہ کسی مسئلہ کی بحث و تحقیق کا ارادہ کرتے ہیں تو اس سے متعلق کتاب و سنت میں جو پاتے ہیں سب کو ایک ساتھ جمع کر لیتے ہیں ، پھر ظنی کو قطعی کی عدالت میں لے جاتے اور مختلف پہلوؤں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ رہا راہ پڑی کسی حدیث سے حکم اچک لینا اور موضوع سے متعلق دوسرے آثار سے صرف نظر کر لینا تو یہ علماء کا طرز عمل نہیں ہے۔‘‘ ’’ہماری طویل علمی تاریخ میں فقہاء ہی ایسے رہبر رہے ہیں جنہوں نے امت کے کاز کو استحکام بخشا ہے اور امت نے اپنی پسند اور اطمینان قلب کے ساتھ اپنے معاملات ان کے ہاتھ میں دے دئیے، رہے اہل حدیث تو وہ آثار کی روایت و نقل کرنے اور اپنی مرویات کو پیش کر دینے پر قانع رہے جس طرح تعمیراتی سامان اس انجینئر کے حوالہ کر دیا جاتا ہے جو گھروں کی تعمیر کرتا ہے اور کنگورے بلند کرتا ہے۔ (ص:۳۰۔ ۳۲) تبصرہ: شیخ غزالی نے مذکورہ بالا عبارت میں جو دعوے کیے اور جو ہرزہ سرائی فرمائی ہے وہ قرآن و حدیث کا سطحی علم رکھنے والوں اور حدیث کی تشریعی حیثیت کے منکرین کے دلوں کی آواز ہے اس لیے میں اس عبارت کے ہر ہر فقرے پر جذبات سے دور رہ کر سنجیدہ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس فریب کا پردہ چاک ہو جائے جو قارئین کو دینے کی انہوں نے کوشش کی ہے، اور جہاں تک ام المؤمنین کے نص قرآن کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے اور اس کی خلاف ورزی نہ کرنے کی بات ہے تو عرض ہے کہ اس صفت سے تنہا ام المؤمنین رضی اللہ عنہا متصف نہیں تھیں ، بلکہ تمام صحابہ کرام اپنے اعمال اور