کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 214
غلطی کر جانے یا ذہن کے نہ سمجھنے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ یہاں پہنچ کر ایک نہایت اہم نکتہ کی طرف اشار ہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کی ایک یا دو یا معدودے چند اشخاص کے روایت کرنے سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس حدیث کا علم رکھنے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہے، کیونکہ روایت حدیث دراصل تعلیم اور تبلیغ سے عبارت ہے، اور ہر عالم معلم اور مبلغ نہیں ہوتا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم میں یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آیا اس لیے اس امر کا تو قطعا کوئی امکان نہیں کہ اس مسئلہ میں انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیا ہو اس تناظر میں ان کا یہ فرمانا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ: ((اِنھم الان یسمعون ما أقول)) بلکہ یہ فرمایا ہے کہ: ((انھم الان لیعملون أن الذی کنت اقول لھم ھو الحق)) درحقیقت اس وقت ان کو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ میں ان سے جو کچھ کہا کرتا تھا، وہ سچ ہے‘‘ تو ان کا یہ ارشاد ’’مرفوع حدیث‘‘ نہیں ہے، بلکہ انہوں نے سورۂ نمل کی آیت کو جس طرح سمجھا تھا اس کی روشنی میں ابن عمر کی روایت کی تصحیح ہے، اسی وجہ سے ابو بکر اسماعیلی نے ان کے ا س کے سماع میں یہ کہہ کر شک کا اظہار کیا ہے: اگر انہوں نے یہ حدیث سنی ہے تو یہ ’’یسمعون‘‘ کی روایت کی نفی نہیں تائید کر رہی ہے‘‘[1] اسماعیلی کی مراد یہ ہے کہ مردوں کے حق میں سننا اور جاننا دونوں برابر ہے۔ اس سے متصلاً پہلے انہوں نے ام المؤمنین کے بارے میں اپنے تاثرات کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے وہ سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے، فرماتے ہیں : عائشہ کو فہم و ذہانت، کثرت روایت اور غیر واضح عبارتوں میں ڈوب کر مطالب اخذ کرنے کا جو ملکہ حاصل تھا وہ بس ہے، اس کے باوجود ان کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کسی ثقہ کی روایات کو رد کر دیں الا یہ کہ ان کے پاس بھی اسی طرح کی نص ہو جو ان کی رد کردہ نص کے نسخ، تخصیص یا محال ہونے پر دلالت کرتی ہو، ایسی صورت میں جبکہ اس روایت میں جس کا انہوں نے انکار کیا ہے اور دوسرے نے اثبات کیا ہے جمع و تطبیق ممکن ہے، کس طرح اس کا انکار کیا جا سکتا ہے، یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی ﴾ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ((انھم الان یسمعون)) کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ ’’اسماع‘‘ سنانے والے کی آواز کو سننے والے کے کان تک پہنچا دینے کا نام ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی‘‘ اس طرح قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں رہا۔ غزالی کی ہرزہ سرائی: شیخ غزالی کو اپنی عمر کے آخری مرحلے میں حدیث سے ایک خاص چڑ ہو گئی تھی اور کسی زمانے میں وہ مستشرقین، مخالفین اسلام، اور اسلامی نظام پر تنقید کرنے والوں کے خلاف جو زبان استعمال کرتے تھے وہ زبان وہ محدثین کے حق میں استعمال کرنے لگے تھے۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے، بلکہ اس کی مثالوں سے ان کی آخری کتاب : ’’السنۃ النبویہ بین
[1] فتح الباری، ص: ۷۷۵، ج:۲