کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 21
کرتا ہے کہ وہ مستقل بالذات اللہ کی اطاعت کریں اور مستقل بالذات ہی رسول کی بھی اطاعت کریں ، رہے اصحاب شان اور اولی الامر تو ان کی اطاعت اس صورت میں کریں جب وہ اللہ و رسول کے مطیع ہوں ، یعنی ان کی اطاعت مستقل بالذات نہیں ہے۔ اصحاب شان میں ائمہ دین، علماء اور حکام سبھی داخل ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طاعت کا یہ ضابطہ دے دیا ہے۔ إنما الطاعۃ فی المعروف، طاعت تو صرف معروف میں ہے۔[1] اس آیت مبارکہ کے فقرہ ’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ‘‘ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دین کے معاملہ میں اختلاف اور نزاع مناسب نہیں ہے کیونکہ ’’ان‘‘ ایسا حرف شرط ہے جو اپنے بعد آنے والے فعل کے وقوع پذیر ہونے کا صرف امکان ظاہر کرتا ہے، ’’اِذا‘‘ کی طرح یقین نہیں ، لیکن اگر کسی مسئلہ میں اختلاف اور نزاع ہو ہی جائے، تو مختلف فیہ اور متنازع فیہ مسئلہ کو صرف اللہ اور رسول کی عدالت میں پہنچانے کا حکم ہے۔ ’’فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ‘‘ اس ارشاد الٰہی میں مختلف فیہ اور متنازع فیہ مسئلہ کو اسی طرح اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دینے اور پھیر دینے کا حکم ہے جس طرح اللہ اور رسول کی بیک وقت اطاعت کا حکم دیا گیا اور ’’الرسول‘‘ کو اللہ پر عطف کرنے کے بجائے اس سے پہلے ’’أطیعوا‘‘ کو دوبارہ لا کر اس امر کی تاکید کر دی گئی ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل بالذات ہے، اللہ کی اطاعت کے تابع نہیں ہے۔ دونوں اطاعتوں کو حرف عطف ’’واؤ‘‘ کے ذریعہ ایک ساتھ جمع کیا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ ان میں کوئی ترتیب نہیں ہے، بلکہ دونوں یکساں درجہ میں فرض ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح متنازع فیہ مسئلہ کو اللہ ورسول کی طرف پھیر دینے کا حکم بیان کرنے کے لیے اللہ و رسول کو بھی ’’واؤ‘‘ ہی کے ذریعہ جمع کیا گیا ہے جس سے یہ تاکید مقصود ہے کہ ہر مختلف فیہ مسئلہ کا حکم صرف اللہ اور اس کے رسول سے معلوم کرنا مطلوب ہے اس حکم میں اطاعت کی طرح اللہ و رسول کے ساتھ ’’اولی الأمر‘‘ کو شامل نہیں کیا گیا ہے، اس حکم میں بھی کوئی ترتیب نہیں ہے کہ مثلاً: متنازع فیہ مسئلہ کو پہلے اللہ کی طرف پھیرو، پھر رسول کی طرف۔ کسی مسئلہ میں اختلاف اور نزاع ہونے کی صورت میں اللہ کے پاس جانے اور اس سے وہ مسئلہ بیان کرنا ممکن نہیں تھا، لہٰذا مختلف فیہ مسائل کو اللہ کی طرف لوٹانے اور پھیرنے سے مراد ان کو کتاب اللہ کی طرف لوٹانا اور پھیرنا ہے، یعنی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم کرنے کے لیے اس کی کتاب سے رجوع کیا جائے۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں ہر مختلف فیہ مسئلہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا اور اس کے بارے میں آپ کا حکم معلوم کرنا ممکن تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عملاً ایسا کرتے بھی تھے۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ سے براہ راست رجوع کر کے کوئی مسئلہ معلوم کرنا ممکن نہ رہا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ
[1] بخاری: ۷۱۴۵۔ مسلم: ۱۸۴۰