کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 19
اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں کے لیے جو انذار اور وعید ہے جو اللہ و رسول کی نافرمانی کریں وہ بالکل عیاں ہے اور ’’ہمارے رسول‘‘ کی تعبیر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس مقام و مرتبے اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے جس تعلق کا اظہار ہو رہا ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی کوئی ۱۸ آیتوں میں اپنی طاعت کے ساتھ اپنے رسول کی طاعت کا حکم دیا ہے اور یکساں درجے میں دیا ہے اور طاعت کے معنی فرمانبرداری کے ہیں جس کی ضد ’’عصیان‘‘ نافرمانی ہے۔
اللہ کی طاعت اس کی کتاب میں مذکور اوامر ونواہی کی بجا آوری ہے اس سے یہ لازم آیا کہ رسول کی طاعت بھی اس کے اوامر ونواہی کی بجا آوری ہو، اس سے دوسری یہ بات ضروری قرار پائی کہ قرآن کی طرح حدیث یا سنت بھی محفوظ ہو، مگر اس کے لیے قرآن کی طرح اس کا دو د فتیوں کے درمیان سورئہ فاتحہ سے سورئہ ناس تک مرتب شکل میں پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کا اس صورت میں موجود ہونا اس لیے ضروری ہے کہ یہ اپنے حروف، الفاظ اور معانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کی نماز کے اندر اور نماز سے باہر تلاوت عبادت ہے۔ حدیث کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے، اولاً: تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا کلام ہونے کی وجہ سے اعجازی صفت نہیں رکھتی۔
ثانیاً: اس کے بعض حروف اور الفاظ میں ایسی تبدیلی کہ مطلب نہ بدلے روا ہے، جبکہ قرآن میں ایسی تبدیلی حرام ہے، رہے قرآن وحدیث سے حاصل ہونے والے احکام تو دونوں کے درجات میں سرمو بھی فرق نہیں ہے، کیونکہ اللہ نے ایسے کسی فرق کا اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے اور نہ کہیں یہی فرمایا ہے کہ رسول اللہ کی اطاعت اس وقت کرنا جب وہ میرا مطیع ہو یا میری کتاب کا مطیع ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے کے ساتھ، آپ کی غایت درجہ عزت واحترام، دنیا کی ہر چیز، حتی کہ ماں باپ اور اولاد اور بیوی سے زیادہ آپ سے محبت، آپ کی آواز پر آواز بلند نہ کرنا، اور عام لوگوں کی طرح آپ کو مخاطب نہ کرنا، آپ کے احکام اور فیصلوں کو پورے انشراح صدر اور طیب خاطر کے ساتھ قبول کرنا اور دل میں بھی ان سے کوئی تنگی اور عدم رضا کی کیفیت نہ پانا صحت ایمان کی شرط ہے، اس لیے کہ رسول کسی حاکم، سربراہ، امیر اور ذمہ دار کی طرح نہیں ہے کہ اس کی اطاعت وفرمانبرداری کر لی، اس کے احکام کو نافذ کر دیا اور تابع فرمان ہوگئے تو فرض ادا ہوگیا، اگرچہ دل میں اس کی عزت واحترام اور تعظیم و توقیر کا کوئی جذبہ نہ ہو، بلکہ رسول ایسا حاکم، ایسا قاضی، ایسا ہادی، ایسا مطاع، متبوع اور مقتدی ہے جس کی ظاہری اطاعت واتباع اور جس کے ہر حکم کی ظاہری تعمیل وبجا آوری سے پہلے اس کے اللہ کا رسول ہونے پر ایمان اور اس سے غایت درجہ محبت ضروری ہے، جس کے رخ انور پر ایک نظر اور جس کے کسی حکم کی بجا آوری حاصل زندگی ہو، باعث مسرت وشادمانی ہو اور دنیا کی ہر نعمت پانے سے زیادہ عزیز ہو۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتاب عزیز میں فلاح پانے والے خوش نصیبوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: