کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 178
تھا، غلط بیانی نہیں تھی۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ اصلاحی صاحب نے اس زیر بحث حدیث کا انکار کیا ہے اور نہ اس کا مذاق اڑایا ہے، انہوں نے اگرچہ حدیث کا صرف حوالہ دینے پر اکتفا کیا ہے اور لفظ جھوٹ پر صرف اتنا تبصرہ کیا ہے کہ لوگ اس کا صحیح مفہوم نہیں سمجھے گویا حدیث میں مذکور ’’تین جھوٹ‘‘ کی تعبیر کو بھی رد نہیں کیا ہے، اور یہ ان کا قابل تحسین پہلو ہے۔ ۳۔ صحیح بخاری کی اس زیر بحث حدیث کی جس بات نے اہل قرآن یا منکرین حدیث کو چراغ پا کر دیا ہے اور ان کی آنکھوں سے نیند اڑا ڈالی ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی بیوی حضرت سارہ کو ’’بہن‘‘ کہنا ہے۔ ڈاکٹر برنی صاحب نے تو حدیث کے اس فقرے کو پڑھ کر اپنا ہاتھ سینے پر رکھ لیا کہ کہیں دل سینہ چیر کر باہر نہ نکل آئے اور دل پر نہایت جبر کر کے اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ ذرا ان کا تیور ملاحظہ ہو۔ ’’جھوٹ کا تیسرا واقعہ قابل قبول نہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے صاحب عزیمت پیغمبر سے اس بات کی توقع محال ہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لے ایک ظالم بادشاہ کے سامنے اپنی بیوی کو بہن قرار دے دیں گے۔‘‘ جناب والا میں اس فقرے کی وضاحت کرنے اور آپ کے مصنوعی کرب کا علاج کرنے سے قبل یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کی جن باتوں پر جھوٹ کا اطلاق کیا گیا ہے ان میں یہ تیسری بات یا تیسرا جھوٹ زیادہ قابل فہم اور زیادہ قرین حق ہے، کیونکہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی سارہ کو ’’بہن‘‘ کہنے کا ایسا سبب بھی بیان کر دیا ہے جو سرا سر قرآنی ہے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کلام اللہ کے مطابق سارے مومنین بھائی بھائی ہیں : ((انما المؤمنون اخوۃ)) غور فرمائیے کہ اہل ایمان کے بھائی بھائی ہونے کو حصر کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مومنین آپس میں محض بھائی بھائی ہیں اور چونکہ مومنین میں مرد اور عورت دونوں داخل ہیں ، لہٰذا وہ بھائی اور بہن دونوں ہوئے رہا یہ مسئلہ کہ ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کو کس اعتبار سے بہن کہا تھا تو حدیث میں یہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ((لیس علی وجہ الأرض مومن غیری وغیرک، وإنّ ھذا سألنی عنک فأخبرتہ أنک اختی)) ’’ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے فرمایا: زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے اور اس نے مجھ سے تمہارے متعلق دریافت کیا تھا تو میں نے اس کو بتایا کہ تم میری بہن ہو ۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام کا یہ ارشاد بآواز بلند یہ اعلان کر رہا ہے کہ انہوں نے حضرت سارہ کو اپنی ایمانی بہن قرار دیا تھا، یا کہا تھا اور اوپر اللہ تعالیٰ کا جو ارشاد نقل کیا گیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ ایمانی اخوت کو معتبر قرار دے رہا ہے، بلکہ حصر کے ساتھ اس کو حقیقی اخوت بتا رہا ہے۔