کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 177
قوم کے ساتھ واپسی سے معذرت کر لی۔
ادھر انہوں نے یہ سوچا کہ اب دلائل کی زبان کے بجائے ان کے بتوں کی بیچارگی کو عملی طور پر بھی ثابت کرنے کی ضرورت ہے، شاید یہ طریقہ کار سود مند ہو اور ان کا باپ اور قوم کے لوگ عقل کے ناخن لیں اور بت پرستی سے باز آ جائیں ۔
خلاصہ بحث یہ کہ ابراہیم علیہ السلام یقینا جسمانی طور پر بیمار نہ تھے، ورنہ وہ قوم کے واپس جانے کے بعد بتوں کے توڑنے پر قادر نہ ہوتے، اس کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو بیمار اس لیے کہا کہ وہ باپ اور قوم کی گمراہی اور بت پرستی سے نالاں ، دکھی اور غم زدہ تھے اور اس ذہنی اور قلبی حالت کے اظہار کے لیے انہوں نے ’’سقیم‘‘ کی جو تعبیر اختیار کی وہ صریح جھوٹ تو نہیں ہے، لیکن قطعی سچ بھی نہیں ہے، بلکہ توریہ کے قبیل سے ہے جس کو حدیث میں کذب سے تعبیر کیا گیا ہے اور ایسا انہوں نے احقاق حق کی خاطر کیا تھا۔
۲۔ جب ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے اپنے بتوں کی تباہ حالی دیکھی تو ان کو بلوایا اور ان سے پوچھا کہ: کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے، پس اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے دریافت کر لو‘‘ قرآن نے ان کا جواب ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُہُمْ ہٰذَا فَسْئَلُوْہُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ﴾ (الانبیا: ۳۶)
مولانا امین اصلاحی کے ایک پرجوش شاگرد ڈاکٹر افتخار برنی نے ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: ’’بتوں کے توڑنے کی ذمہ داری بڑے بت پر عائد کرنا، اتمام حجت کا خوب صورت انداز تھا، جھوٹ نہیں ۔‘‘[1]
ڈاکٹر صاحب سے صرف یہ سوال ہے کہ ’’بل فعلہ کبیرھم ھذا‘‘ بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ توڑ پھوڑ کی ہے‘‘ امر واقعہ کے خلاف تھا یا نہیں ؟ اگر امر واقعہ کے خلاف تھا اور یقینا تھا تو یہی تو جھوٹ ہے، لیکن جس چیز نے اس کو صریح جھوٹ سے نکال کر ’’توریہ‘‘ میں داخل کر دیا وہ ’’فسئلوھم ان کانوا ینطقون‘‘ اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ لوہے، گویا دوسرے لفظوں میں اپنی بت پرست قوم سے بتوں کی عاجزی اور درماندگی کا اعتراف کرانے کے لیے اپنے فعل کو ان کے بڑے کی طرف بایں شرط منسوب کر دیا کہ اگر یہ قوت گویائی رکھتے ہیں تو خود بتا دیں گے کہ ان کی یہ درگت کس نے بنائی ہے، اور اگر قوت گویائی نہیں رکھتے اور یقینا نہیں رکھتے، تو معبود ہونے کے قابل نہیں رہے، مگر بایں ہمہ ان کا جواب ’’توریہ‘‘ ہونے سے نہ بچ سکا اس وجہ سے جہاں مذکورہ دونوں باتوں پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے وہیں ان کو ذات الٰہی کے لیے خاص کر دیا گیا ہے، کیونکہ اس طرز کلام سے قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت پر آمادہ کرنا مقصود
[1] اردو نیوز، روشنی ۵ جمادی الثانی: ۱۲۳۰ھ مطابق ۲۹ مئی ۲۰۰۹ء