کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 176
فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ﴾ (الصافات: ۸۴ تا ۹۰)
’’جب وہ قلب سلیم کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا، جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کی عبادت کر رہے ہو؟ کیا اللہ کو چھوڑ کر جھوٹے معبودوں کو چاہتے ہو؟ اور اللہ رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ پھر اس نے تاروں میں ایک نظر ڈالی اور کہا: میں بیمار ہوں ، سو وہ لوگ اسے چھوڑ کر واپس چلے گئے۔‘‘
اور سورۂ انبیاء میں ہے:
﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰہِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّابِہٖ عٰلِمِیْنَ، اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَ قَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰکِفُوْنَ… وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ ﴾ (الانبیاء: ۵۱۔ ۵۲۔ ۵۷)
’’درحقیقت ہم اس سے پہلے ہی ابراہیم کو ہوشمندی عطا کر چکے تھے اور ہم اسے خوب جانتے تھے۔ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیسی ہیں جن کی عبادت میں تم لگے ہوئے ہو … اور اللہ کی قسم! میں یقینا تمہارے بتوں کو تمہارے واپس چلے جانے کے بعد خفیہ تدبیروں کا نشانہ بناؤں گا۔‘‘
یہ آیتیں یہ بتا رہی ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے باپ اور ان کی قوم کے درمیان یہ مکالمہ معبد میں ہوا تھا جو کسی عمارت میں نہیں ، بلکہ کھلی جگہ واقع تھا، سورۂ الانبیاء میں ’’التماثیل‘‘ سے پہلے اسم اشارہ ’’ھذہ‘‘ یہ صراحت کر رہا ہے کہ مکالمہ بتوں کے پاس ہو رہا تھا اور اسی جگہ ابراہیم علیہ السلام نے نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائیں اور ستاروں کو نہایت گہری نظروں سے دیکھا اور کہا میں بیمار ہوں یہ سن کر معبد کے پجاری ان کے باپ کے ساتھ واپس چلے گئے۔
جس سیاق و سباق میں ’’انی سقیم‘‘ کا فقرہ آیا ہے اور جس پس منظر میں ابراہیم علیہ السلام نے اپنے آپ کو بیمار قرار دیا ہے اس کا اعتبار کرتے ہوئے حدیث سے جان چھڑانے کے لیے بعض لوگوں نے ان کو جسمانی بیمار ثابت کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ حد درجہ دور ازکار ہے اگر وہ ’’فنظر نظرۃ فی النجوم‘‘ کو کوئی محاورہ قرار دینے کے بجائے اس سے وہی مفہوم لیتے جو اس کے الفاظ سے نکل رہا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کو زکام، نزلہ اور کھانسی وغیرہ کا مریض ثابت کرنے کی کوشش نہ کرتے تو قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو جاتا، مگر حدیث سے بیزاری آدمی کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔
درحقیقت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے آپ کو جس معنی میں بیمار کہا تھا وہ معنی ’’انی سقیم‘‘ سے لینے کی گنجائش ہے، لیکن یہ معنی امر واقعہ اور عرف عام کے خلاف تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ اپنے باپ اور اپنی قوم سے بت پرستی کے مسئلے پر بحث کرنے اور پھر ستاروں پر نظر ڈالنے اور ان کی عدم معبودیت کا یقین و اذعان حاصل ہو جانے کے بعد جب انہوں نے قوم کی بت پرستی اور کواکب پرستی اور سورج پرستی پر غور کیا تو ان کے ’’قلب سلیم‘‘ کو سخت صدمہ ہوا اس لیے انہوں نے