کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 17
یَزِرُوْنَ۔ (النحل: ۲۵) ’’غور سے سن لو، کتنا بُرا بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں ۔‘‘
حاصل کلام یہ کہ صوفیا اور متکلمین دونوں توحید سے آشناہی نہیں ہیں موحد ہونا تو دور کی بات ہے۔
۲۔ دوسری جس بات کا اعتقاد اور اقرار مسلمان ہونے کی بنیادی شرط ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتقاد اور اقرار ہے۔
اگر کوئی شخص زبان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دے اور دل سے آپ کو رسول نہ مانے تو اللہ کے نزدیک وہ جھوٹا ہے اور صحیح بات کہنے کے باوجود مومن نہیں ہے، منافقین قسمیں کھا کھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دیتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی اس گواہی کی تصدیق بھی کی ہے اور ان کو جھوٹا بھی قرار دیا ہے:
﴿اِِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ، ﴾ (المنافقون: ۱)
’’جب منافقین تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے رسول ہو اور اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ بلا شبہ منافقین جھوٹے ہیں ۔‘‘
محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے کا مطلب یہ ہے کہ دل میں یہ اعتقاد ہو اور زبان سے یہ اقرار کیا جائے یا یہ گواہی دی جائے کہ آپ پوری دنیا کے لیے اور تمام جن وانس کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں :
﴿قُلْ یٰٓا أَ یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ (الاعراف: ۱۵۸)
’’کہہ دو ، اے لوگو! درحقیقت میں تم تمام لوگوں کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں جس کی ملک آسمان و زمین ہیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کے اس اعتقاد اور اقرار کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ نے ہمیں جن غیبیات کی خبر دی ہے ہم ان کی تصدیق کریں اور ان کو سچ مانیں ، جن باتوں کا ہمیں حکم دیا ہے پورے شرح صدر کے ساتھ ان کی تعمیل کریں ، جن باتوں سے ہمیں روکا اور منع کیا ہے ان سے دور رہیں اور اللہ کی عبادت صرف اس طرح کریں جس طرح کرنے کا آپ نے حکم دیا ہے اور عملا کر کے دکھا دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ الوہیت یعنی عبودیت، ربوبیت اور امور کائنات میں کسی طرح کے تصرف کا آپ کو کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ آپ صرف اللہ کے بندے اور رسول تھے:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ﴾ (الانعام: ۵۰)