کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 16
قرآن پاک کی جس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا ہے اس کے الفاظ ہیں : ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۲۱) ’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔‘‘ اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا صفت خلق سے موصوف ہونا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اسی کو معبود بھی بنایا جائے، تمام لوگوں کو پیدا کرنا اور ان کو عدم سے وجود میں لانا اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کی صرف ایک صفت ہے اور ایسی صفت ہے جو ربوبیت کی تمام صفات کے سرفہرست بھی ہے اور مشرکین کی تسلیم شدہ بھی اس لیے اس کو دلیل بنا کر ان کو اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَ لَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ، اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ، وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ، ﴾ (العنکبوت: ۶۱۔۶۳) ’’اور حقیقت یہ ہے کہ اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے تو یقینا وہ کہیں گے اللہ نے، پھر کہاں بہکائے جا رہے ہیں ، اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور اس کے لیے تنگ کرتا ہے، درحقیقت اللہ ہر چیز کا مکمل علم رکھتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے بادل سے پانی اتارا، پھر اس کے ذریعہ زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیا تو یقینا کہیں گے اللہ نے۔‘‘ ان آیات کے مطابق مشرکین کا عقیدہ توحید ربوبیت صوفیا اور متکلمین کے عقیدہ سے زیادہ خالص اور واضح تھا۔ مذکورہ بالا آیتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے، اور اس نے انسانوں کو اور زمین وآسمان کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے یعنی ہر چیز مخلوق ہے جس کا وجود ہے اس سے صوفیا کے اس عقیدے کی جڑ کٹ جاتی ہے کہ ’’موجود صرف اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘ پھر اگر اللہ کے سوا کوئی چیز موجود ہی نہیں تو کیا اللہ تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہے؟ اور اس نے اپنے سوا جن معبودوں کو باطل قرار دیا ہے، اگر وہ ذات الٰہی سے عبارت ہیں ، کیونکہ اس کے سوا کوئی چیز بھی وجود نہیں رکھتی تو کیا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود ہونے کا ابطال کیا ہے؟ کیا اس سے بڑا الحاد بھی کوئی ہے؟ اَلَا سَآئَ مَا