کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 153
جو لوگ اقامت حد کو گناہوں کا کفارہ نہیں مانتے ان کا قصاص کے مسئلہ میں یہ دعوی ہے کہ قاتل کو قتل کرنا دوسروں کو اقدام قتل سے باز رکھنے کا نہایت مؤثر ذریعہ تو ضرور ہے، لیکن اس سے مقتول کو اس کا حق نہیں ملتا، لہٰذا اس کا مطالبہ باقی ہے، اصلاحی صاحب کا کہنا ہے کہ دنیا میں جرم کی سزا ملنے سے صرف قانونی تقاضا پورا ہوتا ہے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کا جو جواب دیا ہے اس کا خلاصہ ہے:
’’قاتل کو قتل کرنے یا اس سے قصاص لینے کی صورت میں مقتول کو اس کا حق بحسن و خوبی مل جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ ظلماً قتل کیے جانے والے کے گناہ قاتل کے قتل سے معاف ہو جاتے ہیں : مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں مروی حضرت عتبہ بن عبد سلمی کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجود ہے: ((اِن السیف محَّائٌ للخطایا)) ’’درحقیقت تلوار گناہوں کو مٹا دینے والی ہے‘‘[1] اور عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے: ((اِذا جاء القتل محا کل شئی)) ’’جب قاتل قتل کر دیا گیا تو اس نے ہر چیز دھو دی۔‘‘اور بزار نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو مرفوع حدیث نقل کی ہے اس کے الفاظ ہیں : ((لا یمر القتل بذنب الا محاہ)) ’’قتل کسی گناہ کے پاس سے نہیں گزرتا، مگر اس کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ یہ روایتیں نقل کرنے کے بعد ابن حجر فرماتے ہیں : اگر قاتل قتل نہ کیا جاتا تو مقتول کے گناہ معاف نہ کیے جاتے، اس سے بڑا کون سا حق ہے جو مقتول کو مل سکتا ہے، اور اگر حد قتل یا قصاص صرف دوسروں کو اقدام قتل سے باز رکھنے اور روکنے کے لیے فرض کیا گیا ہوتا تو قاتل کو معاف کرنے کی شرعاً اجازت نہ دی جاتی۔ لہٰذا حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گناہ کی پاداش میں حد قائم کرنا، گناہ کا کفارہ ہے۔‘‘[2]
۲۔ دوسرا اشکال، توبہ سے مفسدین کی شرعی سزا ساقط ہو جاتی ہے:
اقامت حد کو گناہوں کا کفارہ نہ ماننے والوں نے دوسرا اشکال یہ پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۳۳ میں اللہ و رسول سے لڑنے والوں اور زمین میں فساد برپانے والوں کی سزائیں بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے:
﴿اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہِمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (المائدہ: ۳۴)
’’مگر جو لوگ قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ توبہ کر لیں ، تو جان لو کہ درحقیقت اللہ بہت معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔‘‘
یہ آیت یہ بتا رہی ہے کہ گناہوں کی سزائیں صرف توبہ سے ساقط ہوتی ہیں ، تنہا اقامت حد ان کے کالعدم ہونے کے لیے کافی نہیں ، حافظ ابن حجر نے اس کا بہت مختصر جواب دیا ہے فرماتے ہیں :
[1] حدیث نمبر ۱۷۸۰۷، ۳۶۶۳
[2] ص:۲۸۳، ج۱