کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 152
ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کو کسی گناہ پر سزا نہیں دی جاتی، مگر اللہ اس گناہ کی پاداش میں اس کی سزا کے لیے اس کو کفارہ بنا دیتا ہے۔‘‘[1] سوال یہ ہے کہ اگر بقول اصلاحی صاحب کے ’’باب نقل کرنے میں راوی سے کوتاہی ہوئی ہے‘‘ تو ان سارے راویوں میں سے کون اس گناہ عظیم کا مرتکب ہوا ہے اور کئی راویوں نے اس گناہ عظیم کو مسلسل دہرا کر اس راوی کی پیروی کی ہے؟ اور اگر یہ کوتاہی قصداً اور ارادۃً تھی تو اس کے پیچھے کون سا جذبہ کار فرما تھا؟ اور اگر نادانستہ تھی اور اس کا ارتکاب کرنے والا کوئی ایک ہی راوی تھا، چاہے وہ صحابی رہا ہو، یا تابعی یا تبع تابعی تو پھر اس نہایت اہم اور سنگین شرعی مسئلہ سے متعلق مسلسل تین صدیوں تک ان تمام حدیثوں کی گردش اور اس اہم کوتاہی سے غفلت یہ معنی رکھتی ہے کہ صحابہ کرام کے عہد سے حدیث کی امہات الکتب کی تدوین کے زمانے تک محدثین امانت و دیانت اور احساس ذمہ داری سے عاری اور عقل و فہم سے خالی الذھن بھیڑ بکریوں کی ایک جماعت سے عبارت تھے!!! یہ درست ہے کہ اصلاحی صاحب نے حدیث کے بارے میں خوارج اور معتزلہ کے نقطہ نظر کو نئی شکل میں پیش کرنے کی سعی مذموم کی ہے اور جس پر ان کے بعد ان کے خلفاء عمل پیرا ہیں ، لیکن خوارج اور معتزلہ کے دلائل بسا اوقات وزنی ہوتے تھے، اگرچہ مغالطہ آمیز ہوتے تھے، مگر اصلاحی اور ان کے مکتبۂ فکر کے لوگ بلند بانگ دعادی کے سوا ء کچھ نہیں رکھتے۔مثلاً آپ کا یہ دعوی کہ: ’’قرآن مجید میں حقوق العباد میں خیانت اور دوسرے گناہوں پر توبہ کا ایک مخصوص طریقۂ کار بتایا گیا ہے، یہ روایت اس طریقۂ کار کو اختیار کیے بغیر گناہوں کا کفارہ ہونے کی بشارت دے رہی ہے۔‘‘ بڑا خوبصورت اور دل موہ لینے والا دعویٰ ہے، مگر اس مخصوص طریقۂ کار کومثالوں سے واضح کرکے حدیث کو اس سے متعارض دکھانا بھی تو تھا، ورنہ دعویٰ تو ہر کوئی جیسا چاہے کر سکتا ہے۔ دراصل یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ جس پر حد قائم کی جائے اس کے لیے بھی توبہ ضروری ہے حد اس کے گناہوں کا کفارہ نہیں ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقامت حد سے حق اللہ تو ساقط ہو جاتا ہے، لیکن حق العباد ساقط نہیں ہوتا امین اصلاحی معتزلہ کی رائے کے قائل ہیں ، چونکہ انہوں نے اپنی رائے کی تائید میں قرآن پاک کی کسی آیت سے استدلال نہیں کیا ہے، بلکہ حسب عادت حدیث کو کسی راوی کی کوتاہی قرار دینے پر اکتفا کیا ہے، اس لیے میں کسی کا نام لیے بغیر ان اشکالات کا ذکر کر کے ان کا جواب دینے کی کوشش کروں گا جو اقامت حد کے کفارہ ہونے کے بارے میں پیش کیے جاتے ہیں ۔ ۱۔ پہلا اشکال: قصاص سے مقتول کا حق نہیں ادا ہوتا۔
[1] المعجم الاوسط: ۸۲۳۸، فتح الباری، ص: ۲۸۳، ج:۱