کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 143
امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث اس باب کے تحت مرجئہ اور معتزلہ کے رد میں لائے ہیں اور باب کے عنوان سے اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ درحقیقت صحیح بخاری محض صحیح احادیث کا مجموعہ نہیں ہے، جیسا کہ حدیث کے دوسرے مجموعے ہیں ، بلکہ اس میں مختلف ابواب کے تحت وہ جو حدیثیں لائے ہیں وہ اپنے ظاہری احکام کے ساتھ ساتھ ایسی گہری اور وسیع دلالتیں بھی رکھتی ہیں جو امام بخاری کے بعد نظر اور ان کے حسن استنباط پر بھی دلالت کرتی ہیں اور بہت سے باطل افکار و عقائد کی تردید بھی کرتی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا امام بخاری نے مذکورہ حدیث کو جس باب کے تحت درج کیا ہے اس کا عنوان ’’تفاضل اہل الایمان فی الاعمال‘‘ اس لیے قائم کیا ہے تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ اسلام کی نظر میں مرجئہ اور معتزلہ کے عقائد باطل ہیں ؛ بایں معنی کہ اعمال کے اعتبار سے ایمان بڑھتا اور گھٹتا بھی ہے اور گناہ کبیرہ کے مرتکب کو جہنم میں تو ڈالا جائے گا، مگر وہ اس میں ہمیشہ نہیں رہے گا، جبکہ مرجئہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ معصیت سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، اور معتزلہ کہتے ہیں کہ معاصی کا مرتکب مومن جہنم میں ہمیشہ رہے گا۔ جب یہ بات واضح ہے کہ قرآن پاک میں کسی جگہ بھی گنہگار مومن کو مجرم نہیں کہا گیا ہے، نہ صراحتاً اور نہ اشارۃً، تو پھر حدیث میں جس گنہگار مومن کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کرنے کی جو خبر دی گئی ہے اس کی بابت آپ کا یہ فرمانا سراسر ہٹ دھرمی ہے کہ قرآن کی رو سے مجرمین کے لیے خلود فی النار کی خبر دی گئی ہے اس فیصلہ میں تبدیلی کیوں کردی جائے گی؟‘‘ دراصل قرآن میں جن مجرمین کے لیے خلود فی النار کی خبر دی گئی ہے ان سے مراد مشرکین ہیں ۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَ لَا یَحْیٰی، وَ مَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی، ﴾ (طٰہٰ:۷۴تا۷۵) ’’درحقیقت جو اپنے رب کے حضور مجرم بن کر حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ وہ مرے گا اور نہ جئے گا اور جو اس کے حضور مومن بن کر حاضر ہوگا اور اس نے نیک اعمال کیے ہوں گے تو ایسے ہی لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں ۔‘‘ ان آیتوں میں مجرم اور مومن ایک دوسرے کی ضد کے طور پر آئے ہیں اور جس مومن کے لیے بلندیٔ درجات کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ایسا مومن ہے جس کے نامہ اعمال میں نیکیاں ہی نیکیاں ہوں گی اس لیے وہ براہ راست جنت میں داخل کرلیا جائے گا، جبکہ حدیث میں جس مومن کی خبر دی گئی ہے وہ ایمان کے ساتھ بداعمالیاں اور گناہ لے کر جائے گا اس لیے اس کو جہنم میں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنی ہوگی۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا یُّجْزَ بِہٖ﴾ (النساء:۱۲۳)