کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 141
’’صحیح بخاری کے باب: ’’تفاضل اہل الإیمان فی الأعمال‘‘ کے تحت ایک حدیث کے الفاظ یوں بیان ہوئے ہیں کہ دوزخ میں جلنے والے مجرمین کے بارے میں حکم ہوگا کہ رائی کے دانے کے برابر بھی جس مجرم کے اندر ایمان ہے اس کو دوزخ سے نکال لو اس طرح جو لوگ جل کر کوئلہ ہوچکے ہوں گے ان کو بھی نکال کر نہر حیات میں ڈالا جائے گا تو وہ دانوں کی طرح اگ پڑیں گے۔ قرآن کی رو سے جب ایمان کا ہر چھوٹا بڑا ذرہ میزان میں تولے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ مجرمین کے لیے جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ کرے گا تو پھر ایک اتنا قیمتی ذرہ جو دوزخ سے نجات کا باعث بن سکتا تھا اعمال نامہ میں سے کیسے برآمد ہوجائے گا اور وہ پہلے کس طرح نظر انداز ہوگیا، پھر قرآن کی رو سے مجرمین کے لیے خلود فی النار کی خبر دی گئی ہے اس فیصلہ میں تبدیلی کیوں کردی جائے گی؟ اس طرح کا عقیدہ یہود رکھتے تھے قرآن نے اس کی نفی کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ ان کا من گھڑت عقیدہ ہے تو کیا انسانوں انسانوں میں سنۃ اللہ کا اطلاق الگ الگ بنیادوں پر ہوگا۔ یہ عقیدہ قرآن میں نہیں ۔‘‘[1] اس حدیث میں گنہگار مومن کے جس آخری انجام کی خبر دی گئی ہے اس پر اصلاحی صاحب کے اعتراض کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے خط کشیدہ عبارتوں کو ذہن میں تازہ رکھئے اور میں حدیث کی جو عبارت نقل کر رہا ہوں اس کی روشنی میں ان پر غور کیجیے تو پہلی نظر میں آپ کو اُن خیانتوں کا سراغ لگ جائے گا جو انھوں نے اپنے اعتراض کو وزنی بنانے کی غرض سے کی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ حدیث میں گنہگار مومن کے جس آخری انجام کی خبر دی گئی ہے نہ وہ قرآن کے خلاف ہے اور نہ یہودیوں کا عقیدہ ہے۔ رہی یہ بات کہ ہر عقیدہ کا قرآن میں ہونا ضروری ہے تو یہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے جس پر میں حدیث اور عقائد کے باب میں بحث کروں گا۔ (ان شاء اللہ) حدیث کا متن اور ترجمہ: ((حدثنا إسماعیل، قال: حدثنی مالک، عن عمرو بن یحییٰ المازنی، عن أبیہ، عن أبی سعید الخدری عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، قال: یدخل أھلُ الجنۃ الجنۃ وأہل النار النار، ثم یقول اللّٰه تعالیٰ: أخرجوا من النار من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من ایمان، فیخرجون منھا قد اسودوا، فیلقون فی نہر الحیاۃ، أو الحیاۃ ۔ شک مالک۔ فینبتون کما تنبت الحبۃ فی جانب السیل، الم تر أنھا تخرج صفراء متلویۃ۔)) ’’ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا: مجھ سے مالک نے عمرو بن یحییٰ مازنی سے انھوں نے اپنے باپ سے،
[1] علوم القرآن، مولانا امین احسن اصلاحی نمبر ص ۲۶۵۔ ۲۶۶۔