کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 136
سے بڑا کوئی عالم نہیں تو قرآن کی رو سے یہ دعوی ٹھیک تھا؛ رسول اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے اور وہ اس بات کا برملا اظہار کرنے پر مامور بھی ہوتا ہے۔‘‘[1] اور تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’…بعض مفسرین نے معلوم نہیں کہاں سے یہ فضول سی بات لکھ دی کہ نعوذ باللہ حضرت موسیٰ ترنگ میں آکر کسی دن یہ کہہ بیٹھے تھے کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بطور تادیب و تنبیہ ان کو اپنے ایک بندے کے پاس بھیجا کہ وہ دیکھ لیں کہ ان سے بھی بڑا عالم موجود ہے…‘‘ (ج:۴، ص : ۵۶) یہ حدیث امام بخاری مختلف ابواب کے تحت لائے ہیں اور ہر جگہ اس کی سندیں مختلف ہیں ۔ اس باب کے تحت وہ جس سند سے لائے ہیں اس میں اور باب الخروج فی طلب العلم (حدیث نمبر ۷۸)، باب حدیث الخضر موسیٰ علیہما السلام (حدیث نمبر: ۳۴۰۰) اور باب المشیۃ والارادۃ (حدیث نمبر: ۷۴۷۸) کی سندوں میں امام زہری شامل ہیں ، جبکہ احادیث نمبر ۱۲۲، ۲۲۶۷، ۲۷۲۸، ۳۲۷۸، ۳۴۰۱، ۴۷۲۵، ۲۶ اور ۶۶۷۲ میں سعید بن جبیر ہیں ، زہری نہیں ۔ اصلاحی صاحب نے جس حدیث کے عنوان پر اعتراض کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ سفر صرف خشکی پر ہوسکتا ہے اور اس کا سمندری سفر ہونا قرآن سے متعارض ہے اس کا نمبر ۷۴ ہے اور ان کے اس دعوی کے بارے میں عرض ہے کہ آپ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے سفر کے جس حصے کا ذکر کرکے اس کو خشکی کا سفر قرار دیا ہے بلاشبہ وہ خشکی کا سفر تھا، رہا اس سفر کا دوسرا حصہ جس کی خاطر یہ پُرمشقت سفر کیا گیا تھا اور جو اس جگہ دونوں کی واپسی کے بعد کا مرحلہ تھا جہاں مچھلی عجیب طریقے سے سمندر میں چلی گئی تھی، کیا قرآن میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس کو بھی خشکی کا سفر قرار دیا گیا ہے کہ بخاری کے مذکورہ باب کے عنوان کو قرآن کے بیان سے متعارض قرار دیا جاسکے۔ یا یہ آپ کی اپنی اُپج ہے؟ اگر آپ اس کا جواب یہ دیں گے کہ ’’فوجدا عبداً من عبادنا سے یہی مفہوم نکلتا ہے کہ اس جگہ دونوں کی واپسی پر وہاں ان کو خضر علیہ السلام مل گئے، تو ہم آپ سے دوسرا سوال یہ کردیں گے کہ اگر اس جگہ خضر علیہ السلام موجود تھے تو موسیٰ اور ان کے ساتھی کو وہاں سے پہلی بار گزرتے ہوئے کیوں نہیں مل گئے تھے؟ یاد رہے کہ قرآن کے مطابق جس جگہ موسیٰ علیہ السلام کے ہم سفر نے ان کو مچھلی کے عجیب طریقے سے سمندر میں چلی جانے کی خبر دی تھی وہاں سے موسیٰ علیہ السلام تنہا نہیں اپنے ساتھی کے ہمراہ واپس پلٹے تھے اس تناظر میں آپ کی عبارت: موسیٰ اپنے نقوش قدم تلاش کرتے ہوئے واپس مڑے‘‘ غلط بیانی اور قرآن کے بیان میں تحریف ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن غیر ضروری امور کو نظر انداز کردیتا ہے اور واقعہ کی روح بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہے
[1] مولانا امین اصلاحی کی خدمت حدیث، علوم القرآن، مولانا امین اصلاحی نمبر، ص:۲۶۵۔