کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 134
یہ اعتراض اس شخص کے مقام اور شہرت سے بہت فروتر ہے جس کی پوری زندگی اس کے دعوی کے مطابق کلام اللہ میں غور و تدبر میں گزری ہے۔ یہ کوئی زیادہ غور طلب بات نہیں تھی کہ جب ایک صحابی یہ کہہ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے موقع پر ’’اس طرح اپنے ہونٹوں کو حرکت دیاکرتے تھے‘‘ تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا اور وہ اس طرح کہ اس نے ارشاد الٰہی: ﴿لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ﴾ کی کیفیت کے بارے میں آپ سے پوچھا ہوگا اور آپ نے اسے بتایا ہوگا کہ میں قرآن کو یاد کرلینے کے شوق میں اس طرح اپنے ہونٹوں کو حرکت دیا کرتا تھا۔ اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت وہ باشعور رہا ہو!!! میں صاحب تدبر قرآن کے اعتراض کا جواب دو لفظوں میں دیتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ ایک دوسری صحیح روایت میں ابن عباس نے صراحت کی ہے کہ ’’میں اپنے ہونٹ تمہاری خاطر اسی طرح ہلاتا ہوں جس طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے‘‘ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابوداؤد طیالسی کی مسند کے حوالہ سے لکھا ہے۔[1] مگر میں نے صرف یہ دکھانے کے لیے اپنی بات کو اتنا طول دیا ہے کہ ’’حدیث نبوی کے یہ نئے خدام‘‘ کس طرح کی ذہنیت اور سوچ رکھتے ہیں اور صحابہ کرام کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں ؟!! صحیح بخاری میں منقول ابن عباس کی حدیث پر اپنے اعتراض کے ضمن میں اصلاحی صاحب مزید لکھتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عجلت کا محرک جذبہ شوق ہوتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ شدت تکلیف کا احساس ایک بالکل مختلف چیز ہے قرآن میں اس کا ذکر نہیں ۔ مزید برآں وحی کے تجربات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی تجربات ہوتے ہیں دوسرے لوگ ان میں شریک نہیں ہوسکتے ان معاملات میں کسی صحابی کی رائے بھی صرف اس وقت قابل قبول ہوگی جب اس کی بنیاد خود نبی کا بیان ہو۔‘‘ اوپر یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی کے موقع پر اپنی زبان اور ہونٹوں کو جو حرکت دیتے تھے تو آپ ایسا وحی کو یاد کرنے کی غرض سے کرتے تھے یعنی آپ جبریل علیہ السلام کے ساتھ خود بھی پڑھتے تھے جس کے نتیجے میں آپ کی زبان اور ہونٹ ہلتے تھے۔ شدت تکلیف کے باعث یا شدت تکلیف کے احساس کے تحت ہونٹوں کے ہلنے کی بات ابن عباس نے ہرگز نہیں کی ہے اور ان کی تعبیر سے دور دور سے بھی یہ مفہوم نہیں نکلتا، پھر اس پر اصرار کیوں ؟ دراصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارادہ اور اختیار سے ایسا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنی زبان ہلانے اور حرکت دینے سے منع کیا ہے، ہلنے اور حرکت کرنے سے نہیں ، اگر شدت تکلیف کے باعث آپ کی زبان اور ہونٹ ہلتے تو اللہ تعالیٰ اس سے منع نہیں کرتا، کیونکہ یہ آپ کا اختیاری فعل نہ ہوتا، امین صاحب کو ’’تحریک‘‘ اور تحرک کا فرق معلوم تھا، انھوں نے ابن عباس کی تعبیر میں ’’نکارت‘‘ دکھانے کے لیے یہ خلط مبحث کیا ہے۔
[1] ص:۲۱۶۲