کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 126
موجود ہے‘‘ یعنی جبریل موجود ہیں ‘‘ ’’وہ‘‘ کا اشارہ واضح کرتا ہے کہ یہ مشاہدہ پہلا نہیں ہے اگر پہلا ہوتا تو اشارے سے کام نہ لیتے۔ اصل یہ ہے کہ سلسلۂ واقعات کو سامنے رکھنے کے بعد یہ دونوں روایتیں جمع ہوجاتی ہیں ، سب سے پہلے جب فرشتۂ الٰہی کا ظہور ہوا تو اس نے کہا: ’’اقرا‘‘ اس کے بعد بھی آپ نے غار حرا کا اعتکاف برابر جاری رکھا، کچھ عرصہ کے بعد پھر آپ نے دیکھا کہ وہی ’’ملک‘‘ فضا میں موجود ہے یہ دیکھ کر آپ پر اضطراب طاری ہوا اور آپ نے کہا: ’’دثرونی‘‘ اس کے بعد ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ﴾ نازل ہوئی۔ ہم نے جو روایت نقل کی ہے وہ صحیح مسلم کے باب ’’بدء الوحی‘‘ میں ہے، لیکن اسی روایت کو امام بخاری نے ’’کیف کان بدء الوحی‘‘ میں حضرت عائشہ کی روایت کے بعد درج کیا ہے اور اس تقدیم و تاخیر اندراج سے واضح کردیا ہے کہ پہلا واقعہ ’’اقرأ‘‘ کا اور دوسرا ’’مدثر‘‘ کا ہے۔ اس طرح تمام اختلاف دور ہوگیا۔ امام بخاری کی یہی دقت نظر، حسن استنباط، قوت اخذ و استدلال، خوبی ترتیب و تقسیم اور فضل مخصوص بتویب و تراجم ہے جو ان کو تمام ائمہ و مجتہدین فن میں ممتاز کرتا ہے اور جس قدر کاوش کرتے جائیے اس کی خوبیاں کھلتی اور بڑھتی جاتی ہیں ۔‘‘[1] جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ غار حرا میں جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں نہیں ، بلکہ فرشتہ کی شکل میں حاضر ہوئے تھے، کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تصریح فرمائی ہے کہ جو فرشتہ غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، البتہ وہ غار حرا میں اپنی پوری جسامت کے ساتھ حاضر نہیں ہوئے تھے ورنہ وہ اس میں سما نہیں سکتے تھے، جبکہ وحی میں توقف کے بعد جب دوسری بار آپ کو نظر آئے تھے تو ان کی عظیم ہستی آسمان و زمین کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی۔[2] رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بشریت اور جبریل علیہ السلام کی روحانیت کے باوجود ان کو کس طرح دیکھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انبیاء اور رسولوں کے اندر یہ توانائی پیدا کردی تھی کہ وہ فرشتوں کو عمومی طور پر اور جبریل علیہ السلام کو خصوصی طور پر دیکھ سکیں یہ درحقیقت ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو نواز رکھا تھا۔ اور معجزہ انبیاء اور رسولوں کے لیے خاص تھا جس میں ان کا نہ کوئی شریک کار رہا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ لیکن جبریل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جس شکل میں پیدا کیا ہے اور وہ جس عظیم اور ہیبت ناک ہیئت سے موصوف ہیں اس شکل اور ہیئت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صرف دو بار دیکھا تھا جس کی دلیل وہ دو صحیح حدیثیں ہیں جن میں سے ایک ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور دوسری عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، چنانچہ صحیح بخاری، کتاب
[1] مقدمہ فاتحۃ الکتاب ص ۱۰۲۔ ۱۰۵۔ [2] بخاری: ۳۲۳۲، ۴۸۵۵، مسلم:۴۳۲، ۴۳۹۔