کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 121
آیتوں سے ان کے اسلوب بیان کے فرق کو سمجھ سکتا ہے۔ اور چونکہ ان کا یہ دوسرا دعویٰ ان کے پہلے دعویٰ پر ہی مبنی ہے، لہٰذا پہلے کے باطل اور خلاف واقعہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی باطل قرار پایا۔ الا یہ کہ ان کا یہ دوسرا دعویٰ کسی کشف و الہام کا نتیجہ ہو، لیکن کشف بھی شرعی دلیل نہ ہونے اور صحیح ترین حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے، میری مراد جس حدیث سے ہے اگرچہ امام زہری پر ادراج کے الزام کے جواب میں گزشتہ صفحات میں اس پر تفصیلی بحث کرچکا ہوں ، مگر موقع کی مناسبت سے اس کو ترجمہ کے ساتھ دوبارہ نقل کردیتا ہوں : ((عن عائشۃ أم المؤمنین أنھا قالت: اول ما بدیٔ بہ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی النوم، فکان لا یری رؤیا الاجائت مثل فلق الصبح، ثم حبب إلیہ الخلاء، وکان یخلو بغار حراء فیتحنت فیہ -وہو التعبد- اللیالی ذوات العدد، قبل أن ینزع إلی أھلہ ویتزود لذلک، ثم یرجع إلی خدیجۃ فیتزود لمثلہا، حتی جائہ الھدیٰ وہو فی غار حراء، فجائہ الملک، فقال: اقرأ، قال: ما أنا بقاریٔ، قال: فأخذنی فغطنی، حتی بلغ منی الجہد، ثم أرسلنی۔ فقال: إقرأ۔ قال: ما أنا بقاریٔ، فأخذنی فغطنی الثانیۃ، حتی بلغ منی الجہد، ثم أرسلنی، فقال: اقرأ، فقال: ما أنا بقاریٔ، فأخذنی فغطنی الثالثۃ، ثم أرسلنی، فقال: اقرأ باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقرأ وربک الأکرم۔))[1] ’’پہلے پہل وحی کی ابتدا اچھے خوابوں سے ہوئی؛ آپ جو خواب دیکھتے وہ صبح کے اجالے کی مانند ہوتا، پھر آپ کو تنہائی پسند ہوگئی اور غار حرا میں تنہا کئی کئی راتیں تحنث - عبادت- میں گزارنے لگے، قبل اس کے کہ اپنی بیوی بچوں کے پاس واپس جائیں ، اور اس خلوت نشینی کے لیے توشہ ساتھ لے جاتے، پھر خدیجہ کے پاس واپس جاتے اور اسی طرح کی راتوں کے لیے سامانِ ضرورت ساتھ لے لیتے، یہاں تک کہ ایک دن اسی غار حرا میں اچانک حق نمودار ہوگیا اور فرشتہ آپ کے پاس آگیا اور کہا: پڑھو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ اس پر اس نے مجھے پکڑ کر اس طرح مجھے بھینچا کہ میری قوت برداشت اپنی آخری حد کو پہنچ گئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو۔ آپ نے فرمایا: میں پڑھنا نہیں جانتا، اس نے دوسری بار مجھے پکڑ کر مجھے بھینچا، یہاں تک کہ میری قوت برداشت اپنی آخری حد کو پہنچ گئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو۔ آپ نے جواب دیا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ اس نے تیسری بار مجھے پکڑ کر مجھے بھینچا، یہاں تک کہ میری قوت برداشت اپنی آخری حد کو پہنچ گئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا:
[1] بخاری : ۳، ۴۹۵۳، ۶۹۸۲، مسلم:۱۶۰۔