کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 119
خطاب ہٹ دھرموں کو جھنجھوڑنے والا ہے اور دعوت کے عروج کے زمانے کے لیے موزوں ہے۔‘‘ یہ بلند بانگ دعویٰ اردو داں طبقہ کے لیے بڑا موثر ہے، انھوں نے اس سورہ کو از اول تا آخر ’’ہم آہنگ و ہم رنگ‘‘ دکھانے کے لیے جو زور لگایا ہے وہ صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ غار حرا میں جبریل علیہ السلام اپنی پہلی آمد کے موقع پر کوئی وحی لے کر نہیں آئے تھے۔ اصلاحی صاحب کا یہ عام انداز ہے کہ وہ اپنی انفرادی رائے، خیال یا نظریہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اس طرح کے دعوے کرتے رہتے تھے، جہاں تک اس زیر بحث سورہ کے ’’تیز و تند‘‘ انداز خطاب کی بات ہے جو از ابتدا تا انتہا ایک ہے، تو یہ صرف ان کی ’’بڑ‘‘ ہے جس کو اتنی شد و مد کے ساتھ انھوں نے اس لیے بیان کیا ہے تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ آغاز وحی کی حدیث میں یہ پانچ آیتیں کسی راوی نے اپنی طرف سے بڑھا دیں اور ۱۴ صدیوں سے محدثین، مفسرین، فقہاء اور ارباب سیر اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ جبریل علیہ السلام جب پہلی بار غار حرا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو اپنے ساتھ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں بھی لائے تھے۔ میں قارئین کو دعوت دیتا ہوں کہ پہلے وہ ان پانچوں آیتوں پر ان کے ترجمہ کے ساتھ ایک نظر ڈال لیں ، پھر میں جو کچھ عرض کروں اس پر ہر طرح کے جذبات سے پاک ہوکر غور کریں ، اس کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ کیا یہ پہلی وحی الٰہی ہوسکتی تھیں یا نہیں ؟ ارشاد الٰہی ہے: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ، ﴾ (العلق:۱تا۵) ’’پڑھ اپنے اس رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا پڑھ اور تیرا رب ایسا بے پناہ صاحب جود و بخشش ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو اُن چیزوں کا علم بخشا جنھیں وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ کتنا پیارا، دلنواز اور موثر انداز بیان ہے۔ اور ان نہایت شیریں اور میٹھے بولوں میں اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں بیان ہوئی ہیں وہ بدیہی حقیقتیں ہیں جن کے معترف مومن و کافر دونوں ہیں ، سب کے دلوں کی یہ آواز ہے کہ رب کائنات ہی سب کا خالق ہے اور اسی کے خوانِ جود و بخشش پر سب پل رہے ہیں اور اسی نے انسانوں کو علم سکھایا اور ذریعہ علم قلم پکڑنا اور چلانا سکھایا۔ ان پانچوں آیتوں کے الفاظ حد درجہ نرم، فوراً زبان پر جاری ہوجانے والے اور ناقابل تردید حقیقتوں کے ترجمانی ہیں ۔ اور ان کی ترکیب بے حد سہل اور پر از جمال ہے ان آیتوں میں رب کائنات کی کرم فرمائیوں کو دل میں اتر جانے والے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے اور سارا زور پڑھنے پر دیا گیا ہے جو ذریعہ علم و معرفت ہے۔