کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 114
(۳)… شعیب بن ابی حمزہ کے شیخ امام زہری کا تعارف اور ان کی ثقاہت و عدالت، حفظ و ضبط اور دیانت و تقویٰ شعاری کا مذکورہ بالا صفحات میں متعدد بار کرایا جاچکا ہے اور یہ سطور ان پر لگائے جانے والے جاہلانہ اور سطحی الزامات کے رد ہی میں سپرد قلم کی جارہی ہیں ۔ ایک بات کا البتہ انکشاف کردوں کہ قدیم زمانے سے اب تک اور عربوں سے لے کر عجموں تک جس نے بھی امام زہری پر کیچڑ اچھالا ہے، وہ علم و دیانت کے پردے میں حدیث کا دشمن رہا ہے اور اس حدیث دشمنی میں یہود و نصاریٰ سے تعلق رکھنے والے مستشرقین اور نام نہاد مسلم محققین کی سوچ، انداز بیان، اور غور و فکر کے زاویے ایک ہیں ۔ انداز بیان اور اغراض و مقاصد میں یہ یک رنگی اور ہم آہنگی تعجب خیز ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ دیتی ہے کہ باطل افکار و خیالات اور حق دشمنی کے نعروں کے پیچھے ایک ہی طرح کے محرکات کار فرما ہیں ، ورنہ کیا وجہ ہے کہ گولڈ زیہر، محمود ابوریہ، احمد غامدی، امین اصلاحی اور ان کے دوسرے ساتھی زمان و مکان کی دوری کے باوجود انکار حدیث کے حوالہ سے اس حیرت ناک شکل میں متحد الخیال ہوں ؟!! (۴)… امام زہری نے یہ حدیث اپنے وقت کے امام حدیث اور یکے از فقہائے سبعہ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ متوفی ۹۸ھ یا ۹۹ھ مطابق ۷۱۶ء یا ۷۱۷ء سے سنی جن کا تفصیلی تعارف فقہائے سبعہ کے ضمن میں کرایا جاچکا ہے۔ البتہ یہ جان لینا فائدہ سے خالی نہیں کہ ان کی وفات کے وقت امام زہری ۴۲ برس کے پختہ کار تھے اور ان سے اپنی مرویات بیان کرتے پھر رہے تھے، لہٰذا اگر سات مشکیزوں والا فقرہ زہری کا گھڑا ہوا ہے اور وہ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ کے حوالہ سے بیان کیا جارہا ہے، تو پھر ان کو چاہیے تھا کہ وہ زہری کی سرزنش کرتے، اور چونکہ انھوں نے ایسا نہیں کیا ہے، لہٰذا اس جرم میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں ؟!! (۵)… عبید اللہ نے یہ حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سن کر روایت کی ہے میں نے سند کے راویوں کا اتنا تفصیلی تعارف اس لیے کرایا ہے، تاکہ قارئین کو دلائل کے ساتھ یہ اطمینان دلاسکوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’مرض الموت‘، کی حدیث میں ، ’’سات مشکیزوں ‘‘ کے فقرے کو گھڑ کر شامل کرنے کا جو الزام اصلاحی صاحب نے زہری پر لگایا ہے وہ بے بنیاد تو ہے ہی، اسی کے ساتھ اس کا نشانہ سند کے تمام راوی اور صحیح بخاری کے مصنف امام بخاری بھی ہیں ۔ حدیث کی بے غبار سند کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد اب میں اس کے متن کی طرف آتا ہوں اور آغاز ہی میں یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر سات ایسے مشکیزوں کا پانی ڈالنے کا جو حکم دیا تھا جن کا منہ کھولا نہ گیا ہو‘‘ اس کی نسبت آپ سے صحیح ہے ورنہ آپ سے اس کی روایت کرنے والی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان سے نیچے کے تمام جلیل القدر راوی جھوٹے قرار پائیں گے، اور یہ عمل کوئی خرافاتی عمل نہیں ، بلکہ ایک طبی طریقہ تھا جس کی تفصیل درج ذیل ہے: (۱)… حدیث میں مشکیزوں کی تعداد کے سات ہونے کی تحدید کی حکمت صحیح بخاری کے شارح امام ابوسلیمان حمد