کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 105
ارسال کی تعریف کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ عربی لغت میں ارسال کے بہت سے معنوں میں سے ایک معنی چھوڑ دینے اور آزاد کرنے کے بھی آتے ہیں ، اس طرح یہ ’’قید‘‘ کی ضد ہے اور علم حدیث کی اصطلاح میں ارسال کے معنی یہ ہیں کہ کوئی تابعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست کوئی حدیث روایت کرے اور اپنے بعد کے راوی کا، جس سے اس نے یہ حدیث سنی ہے ذکر نہ کرے۔ اور ایسی حدیث اصطلاح میں ’’مرسل‘‘ کہی جاتی ہے جو ’’مسند‘‘ کی ضد ہے۔ چونکہ تابعی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کا ذکر نہ کیا جانے والا راوی بھی تابعی ہوسکتا ہے جس کا عدل اور ثقہ ہونا یقینی نہیں ہے، اس لیے مرسل روایت کا شمار ضعیف اور مردود روایتوں میں ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہو کہ تابعی نے جس راوی کا ذکر کیے بغیر حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے وہ صحابی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ کون ہے، تو وہ حدیث صحیح ہے، کیونکہ تمام صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت حدیث میں باتفاق ائمہ حدیث و فقہاء عدول اور ثقہ ہیں ۔ حدیث میں ’’ارسال‘‘ سے کام لینے میں امام زہری منفرد نہیں تھے، بلکہ سید التابعین سعید بن مسیب، عامر بن شراحیل شعبی اور حسن بصری وغیرہ کا نام بھی ارسال کرنے والوں میں ملتا ہے۔ اگرچہ کسی بھی تابعی کی مرسل روایت ناقابل استدلال ہے، لیکن ارسال کی صفت سے موصوف ہونے کی وجہ سے کسی تابعی کی ثقاہت مجروح نہیں ہے کہ اس کی مسند روایت ردّ کردی جائے۔ (۳) زہری اور افسانہ طرازی: صاحب تدبر قرآن نے امام زہری کی روایت کردہ ’’حدیث افک‘‘ کو افسانہ قرار دے کر امام زہری کی ثقاہت کو داغدار بنانے کے ساتھ ساتھ صحیح بخاری کی صحت کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ زہری نے ’’افک‘‘ کی مختلف روایتوں کو جمع کرکے اور ان میں خلط ملط کرکے اس کو ایک افسانوی کہانی بنادیا ہے۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ امام زہری نے سیرت پاک کے بعض ایسے واقعات میں ایسا کیا ہے جو مکمل طور پر کسی ایک صحابی نے نہیں ، بلکہ متعدد صحابیوں یا متعدد ثقہ تابعیوں نے الگ الگ بیان کیے ہیں اور اس سے پہلے یہ بیان کرچکا ہوں کہ سیرت پاک کے واقعات صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر اپنے الفاظ میں بیان کیے ہیں ، یعنی ان کا شمار ’’قولی حدیث‘‘ میں نہیں ہوتا۔ ’’واقعہ افک‘‘ یا ’’حدیث افک‘‘ جس کو اصلاحی صاحب نے افسانہ بتایا ہے اور اس کو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی کردار کشی سے تعبیر کیا ہے، اس کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز کی مسلسل ۱۱ آیتوں میں بیان کیا ہے اور اس کا آغاز جس انداز میں کیا ہے وہ اس کو افسانہ کہنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے، ارشاد الٰہی ہے: ﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ جَائُ وْا بِالْاِِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَکُمْ﴾ (النور:۱۱)