کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 103
عجیب بات ہے کہ میں نے امام زہری کے ادراج کی جو دو مثالیں دی ہیں وہ اصلاحی صاحب کی نگاہ تحقیق میں نہیں آئیں ، انھوں نے زہری کے ادراج کی ایک مثال دے کر ان کے اس میں ماہر ہونے کا جو دعویٰ کیا ہے اس کی حقیقت بیان کرنے سے قبل یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں حدیث کے وحی ہونے کی بحث تو مناسب واقع پر کروں گا اور کتاب و سنت سے اس کے حق میں دلائل پیش کروں گا، یہاں سلسلۂ بحث کو برقرار رکھتے ہوئے صرف یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے یا اچھے خوابوں کو وحی میں شمار کیا ہے۔ (۳) تیسری مثال: اصلاحی صاحب نے زہری کے ادراج کی جو ایک مثال دی ہے اور جس کی وجہ سے ان پر سخت تنقید کی ہے وہ صحیح بخاری میں مروی قیصر روم ہرقل والی روایت کا وہ فقرہ ہے جو ابن ناطور سے متعلق ہے۔ ان کی اس تنقید کا جواب دینے سے قبل اس روایت کا پس منظر بیان کردینا مناسب ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ملکوں کے بادشاہوں اور امراء کے نام جو خطوط ارسال فرمائے تھے اور ان میں ان کو اسلام لانے کی دعوت دی تھی ان کے سرفہرست وہ مکتوب گرامی تھا جو آپ نے مشہور صحابی دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ کو دے کر قیصر روم ہرقل کے پاس بھیجا تھا، جس وقت مکتوب مبارک اس کے پاس پہنچا تھا اس وقت وہ ’’ایلیاء‘‘ میں موجود تھا۔ ایلیاء جس کے معنی ’’بیت اللہ‘‘ کے ہیں اس وقت دمشق سے زیادہ اہم شامی شہر تھا۔ اسی زمانے میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں قریش کا ایک تجارتی قافلہ اتفاق سے غزہ میں موجود تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط وصول کرنے کے بعد ہرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی غرض سے عرب تاجروں کو بلابھیجا اس طرح ابوسفیان جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے اور ہرقل کے درمیان وہ مشہور مکالمہ ہوا جو صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ اصلاحی صاحب نے پہلے تو صحیح بخاری میں اس واقعہ کے درج کیے جانے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ نہ قول رسول ہے، نہ فعل رسول اور نہ تقریر رسول، پھر اس کو حدیث کا نام کیسے دے سکتے ہیں ؟ دوم اس روایت کے آخر میں ’’ابن ناطور‘‘ کے واقعہ کو زہری کی ’’اختراع‘‘ قرار دیا ہے جس سے ان کی نظر میں مشرکوں کی کہانت اور علم نجوم کی تائید ہوتی ہے۔ جہاں تک صحیح بخاری میں ہرقل والی روایت درج کیے جانے پر ان کا اعتراض ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ان کے دعوی کے مطابق صحیح بخاری میں اس روایت کا نقل کیا جانا درست نہیں ہے، پھر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے نوے فیصد واقعات کو حدیث کی کتابوں سے نکال دینا چاہیے، کیونکہ نہ یہ قول رسول ہیں ، نہ عمل رسول اور نہ تقریر رسول، لیکن اگر محدثین نے صحابہ کرام کے بیان کردہ ان واقعات کو حدیث کے مجموعوں اور سیرت کی کتابوں میں حدیث کے نام سے درج کیا ہے تو کیا اس سبب سے نہیں کہ ان کا تعلق صاحب رسالت محمد بن عبد اللہ فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات