کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 630
(( لَیْسَ عَلَی النِّسَآئِ حَلْقٌ، اِنَّمَا عَلَی النِّسَآئِ التَّقْصِیْرُ )) [1] ’’عورتوں کے لیے سر منڈوانا نہیں، ان کے لیے کچھ بال کاٹنا ہی کافی ہے۔‘‘ تحللِ اول: حلق یا تقصیر کے بعد احرام کھول دیں، اس کے ساتھ ہی صرف میاں بیوی کے ازدواجی تعلق کو چھوڑ کر باقی وہ تمام اشیا حلال ہوگئیں جو احرام کی وجہ سے حرام تھیں۔ طوافِ افاضہ کامسنون وقت: طوافِ افاضہ کامسنون وقت تو یوم نحر ۱۰/ ذو الحج ہی ہے، کیونکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ نحر میں قربانی کی اور مکہ مکرمہ چلے گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔‘‘[2] لہٰذا مسنون تو یہی ہے، لیکن اگر عذر (حیض یا بیماری) ہو تو ایامِ تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳/ذوالحج) میں سے کسی دن کر لینا چاہیے، یہی بہتر ہے ورنہ جب عذر و مجبوری زائل ہو، واپسی سے پہلے پہلے یہ طواف کرلیں اور اس تاخیر پر کوئی فدیہ بھی نہیں۔ تحلّلِ ثانی یا تحلّلِ کلی: طوافِ افاضہ و سعی کر لینے کے بعد حجاج پر میاں بیوی کے تعلقات سمیت ہر وہ چیز حلال ہو جاتی ہے جو احرام کی وجہ سے حرام تھی۔ حدیث میں ہے: ’’۔۔۔ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج مکمل کرلیا اوریومِ نحر میں قربانی دے لی اور بیت اللہ کا ’’طوافِ افاضہ‘‘ بھی کر لیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز کو حلال کر لیا جو (احرام کی وجہ سے) حرام تھی۔ ‘‘[3] قیامِ منیٰ اور ذِکر و عبادت: حدیث میں ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر کے بعد طوافِ افاضہ کیا، پھر منیٰ کی طرف تشریف لے گئے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۷۲۸) صحیح مسلم (۹- ۵۱) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۶۹۱) صحیح مسلم (۸/ ۲۱۰) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۶۹۱، ۱۶۹۲) صحیح مسلم (۸- ۲۱۰، ۲۱۱)