کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 59
اپنے رب ہی پر بھروسا کرتے ہیں (اور) وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو مال و دولت انھیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں، یہی سچے مومن ہیں جن کے لیے ان کے رب کے ہاں درجات بخشش اور عزت کی روزی ہے۔‘‘ ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سچے مومنوں کی پانچ صفات ذکر فرمائی ہیں۔ ان میں سے پہلی تین صفات کا تعلق دل سے اور دوسری دو صفات کا تعلق اعضا سے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی اور سچے ایمان کے حصول کے لیے اعضا کا عمل ضروری ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عملِ صالح سے ایمان میں اضافہ ہو تا ہے۔ اس لیے اہل ِ ایمان اطاعت ومعصیت کے حساب سے آپس میں برابر نہیں، ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں، جیسا کہ سورۃ الحجر ات (آیت: ۷) میں فرمانِ الٰہی ہے: { وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ} ’’لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے دلوں میں مزین کیا۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ} [الأعراف: ۱۵۸] ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔‘‘ یہی شہادتین ہیں جن کے بغیر بندہ دین میں داخل نہیں ہوسکتا، اور یہ معلوم ہے کہ شہادتین اعتقاد کے اعتبار سے قلبی عمل اور اقرار کے اعتبار سے زبانی عمل کا نام ہے۔ جب تک قلب و زبان کا اقرار وعمل ایک دوسرے کے مطابق نہ ہو، ایمان بے فائدہ و بے ثمر ہے، کیونکہ ایمان صرف زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق ہی کا نام نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عملِ صالح بھی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ میں ان لوگوں کو جنت کی خوشخبریاں سنائی ہیں جو ایمان والے اور عملِ صالح کرنے والے ہوں، جیسا کہ اس کا فرمان ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ} [البقرۃ: ۲۷۷] ’’جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز کو درستی سے ادا کیا اور زکات دی، ان کا ثواب ان کے مالک کے پاس ان کو ملے گا، نہ ان کو ڈر ہوگا نہ غم۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر تمام انسانوں کو خسارہ پانے والا قراردیا ہے، سوائے ان لوگوں