کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 576
سنن ابو داود کی ایک دوسری روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چاندی کے کچھ چھلے پہنے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’عائشہ! یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے انھیں اس لیے بنوایا ہے، تاکہ آپ کے لیے خوب صورت بن سکوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تو اس کی زکات ادا کرتی ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ جہنم کی آگ میں سے تمھارا حصہ ہے۔‘‘ یہ حدیثیں سونے چاندی کے زیورات میں زکات کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں، چاہے وہ استعمال میں ہوں یا نہ ہوں، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کے زیور کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ بس نصاب شرط ہے، اگر اس کی مقدار نصاب کو پہنچ جائے اور اس پرایک سال کی مدت گزر جائے تو اس پر زکات واجب ہو جاتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی وعید ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ زکات میں بخل کرنا اور اس کو ادا نہ کرنا بہت خطرناک ہے، قیامت کے دن اس کا مال خود اسی کے لیے باعثِ نقصان اور وبالِ جان بن جائے گا، خواہ وہ نقدمال ہو، یا پھل ہوں، یا اونٹ گائے اور بکریاں ہوں، ایسے سبھی مالوں کے سبب قیامت کے دن اس کو عذاب ہوگا۔ اونٹ، گائے، بکری، سونے اور چاندی، نقدی اور مالِ تجارت، زرعی پیداوار اور اس کے علاوہ دوسری اشیا کے متعلق عذاب کیسا اور کیا ہوگا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیان فرمایا ہے۔ مسلم معاشرے میں جن عادات کو عام ہونا چاہیے، ان میں سے ایک زکات ہے، سورۃ التوبہ (آیت: ۷۱) میں فرمانِ الٰہی ہے: {وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ} ’’اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، اچھی بات سکھلاتے ہیں اور بُری بات سے منع کرتے ہیں اورنماز کو درستی کے ساتھ (وقت پر جماعت سے) ادا کرتے ہیں اور زکات دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم