کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 574
گا اور اسے کہے گا کہ میں تیرامال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں جس کو تم دنیا میں بڑا پیار کرتے تھے۔ ’’یہی وہ خزانہ ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا، لو اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو۔‘‘[1] سورۃ التوبہ (آیت: ۳۴، ۳۵) میں ارشادِ الٰہی ہے: {اَلَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ . یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ} ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن کے عذاب الیم کی خوشخبری سنا دو، جس دن وہ دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا، پھر اس کے ذریعے سے ان (بخیلوں) کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور ان سے کہا جائے گا:) یہ وہی مال ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، تو اب چکھو اس کا مزہ جو تم جمع کرتے تھے۔‘‘ زکات میں بخل کرنے کی سزا یہی جہنم ہے۔ جو مال اس نے جمع کیا، جس میں بخل کیا اور جس کے لیے پریشان ہوا، اسی سے اس کو عذاب ہوگا اور قیامت کے دن وہی اس کے لیے عذاب بن جائے گا، کیونکہ اس نے اس مال کا حق ادا نہیں کیا تھا تو وہ ہی اس کے لیے وبالِ جان بن گیا۔ ہر وہ مال جس کا حق اور اس سے متعلق اللہ کا فریضہ ادا نہ کیا جائے تو وہ کنز [جمع کیا خزانہ] ہے اور جس کی زکات ادا کردی جائے تو وہ کنز نہیں رہتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نصاب کو پہنچے جس مال کی زکات ادا کر دی جائے تو وہ مال کنزنہیں ہے۔‘‘[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی سونے چاندی والا اس کا حق ادا نہیں کرتا یعنی اس کی زکات ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے آگ کے تختے بچھائے جائیں گے اور جہنم کی آگ میں ان کو تپایا جائے گا، پھر اس کی پیشانی، اس کے پہلو اور اس کی پیٹھ کو داغا جائے گا۔ وہ
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۵۶۵) دیکھیں: تفسیر أحسن البیان: حافظ صلاح الدین یوسف۔ [2] سنن أبي داود، کتاب الزکاۃ، رقم الحدیث (۱۵۶۴)