کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 55
لوٹ کر جانا ہے۔ جن باتوں میں تم (دنیا میں) اختلاف کرتے تھے، وہ تم کو بتا دے گا۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کر کے انسانوں کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی آزادی دی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ایک ہی راستے یعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تھا۔ اختیار دینے سے مقصود اِن کا امتحان ہے، اس لیے مسلمانو! نیکیوں کی طرف سبقت کریں۔ یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہیں اور وحیِ الٰہی اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بھلائی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی اسلامی عقیدے کے ساتھ بھیجا ہے اور یہی صحیح ہے۔ اسی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’میری امت میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، جس کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوگی، لوگ ان کا ساتھ چھوڑ کر ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ’’یہود اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور نصاریٰ بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت (ان سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل جائے گی، یعنی میری امت) کے لوگ تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائیں گے، لیکن وہ سب کے سب دوزخی ہوں گے سوائے ایک کے۔‘‘ صحابہ علیہم السلام نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون سا فرقہ ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو میرے اور میرے صحابہ کرام ( علیہم السلام ) کے طریقے پر ہوگا۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان لوگوں میں سے بنائے اور ہمارے دلوں کو ہدایت پر قائم و دائم رکھے۔ یہی قرآن و سنت کے مطابق صحیح اسلامی عقیدہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے اور یہی وہ عقیدہ ہے جس پر ہمیشہ مضبوطی سے قائم رہیں اور اس کی خلاف ورزی سے ڈرتے رہنا چاہیے، کیونکہ یہی راہِ نجات ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت و کامیابی اسی میں ہے۔ یہی وہ جادۂ مستقیم ہے جس کو اس امت کے سلفِ صالحین اور ائمہ دین نے اختیار کیا۔
[1] مختصر صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۰۹۵) مسند أحمد (۵ ۴۳۶) [2] السلسلۃ الصحیحۃ، رقم الحدیث (۲۰۳۔ ۱۴۹۲)