کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 540
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھنا زمانہ بھر کے روزے رکھنا ہے۔‘‘[1] یعنی پوری زندگی کے دو زوں کا ثواب ملے گا اور یہ تین روزے کب رکھے جائیں؟ ترمذی ونسائی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو ہر ماہ کے تین روزے رکھنے کا حکم دینا اور (چاندکی) تیرہ،چودہ،پندرہ(۱۳،۱۴،۱۵) تاریخ کے روزوں کی تعیین کرنا ثابت ہے۔[2] حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ماہِ صبر(ماہِ رمضان) کا روزہ اور ہر ماہ میں تین دن کے روزے دل کے کینے کو ختم کر دیتے ہیں۔‘‘[3] خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایامِ بیض کے روزے کبھی ترک نہ فرماتے، خواہ سفر میں ہوتے یا گھر میں۔[4] دورانِ جہاد نفلی روزہ رکھنے کی فضیلت: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے جہاد کے دوران میں ایک دن کا نفلی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے ستر سال کی مسافت کے برابر جہنم سے دور کردیں گے۔‘‘[5] پیر اور جمعرات کے روزے: توسالانہ اور ماہانہ نفلی روزے ہیں جبکہ ہمت والوں کے لیے تو ہر ہفتے میں بھی پیر اور جمعرات دو دن کے روزے مسنون اور کارِ ثواب ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِن دو دنوں کا روزہ رکھنا ثابت ہے، چنانچہ سنن ترمذی اور نسائی شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔‘‘[6]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۹۷۹) [2] مشکاۃ المصابیح (۱/ ۶۳۷) [3] صحیح الترغیب، رقم الحدیث (۱۰۱۸) [4] سنن النسائي، رقم الحدیث (۲۳۴۵) السلسلۃ الضعیفۃ، رقم الحدیث (۵۸۰) [5] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۶۸۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۱۵۳) [6] مشکاۃ المصابیح (۱- ۶۳۷) وصححہ الألباني، إرواء الغلیل (۴- ۱۰۲)