کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 53
کلمہ شہادت کے متعلق ایک عالم دین کاواقعہ: ایک عالمِ دین کے پاس کچھ بچے قرآن و حدیث کا سبق پڑھنے آتے تھے، ان میں سے کسی ایک نے مولانا صاحب کو ایک طوطا لا کر دیا جو باتیں کرتا تھا۔ مولانا صاحب نے طوطے کو کلمہ شہادت پڑھانا شروع کردیا اور طو طے نے کلمہ شہادت یاد کر لیا۔ اب وہ سارا دن ’’أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘‘ پڑھتا رہتا تھا، ایک دن شیخ صاحب رو رہے تھے۔ اتنے میں ایک طالب علم باہر سے آیا اور اس نے دیکھا کہ مولانا صاحب بہت رو رہے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیوں رور ہے ہیں؟ مولانا صاحب نے کہا کہ طوطا مر گیا ہے، اس کو بلی نے کھا لیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم اور طوطا لے آتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں اس کی موت کی وجہ سے نہیں رورہا، مجھے اس لیے رونا آرہا ہے کہ سارادن اس کی زبان پر کلمہ شہادت رہتا تھا لیکن مصیبت کے وقت اس کی زبان پر ’’أشہد أن لا إلہ إلا ا للّٰه ‘‘ کے بجائے چیخ پکار کے سوا کچھ نہ تھا اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارا کلمہ شہادت بھی محض زبان کی حدتک نہ رہ جائے۔ کیا ہم اس کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟ کلمہ توحید کے تقاضے: کلمہ شہادت کے تقاضے یہ ہیں: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کی خبر دی ہے، ان کی اپنے دل کی گہرائیوں سے تصدیق کرنا۔ 2۔ ماضی میں گزرے واقعات کی جو خبر دی ہے اور مستقبل میں آنے والے حالات کے بارے میں جو پیش گوئی کی ہے، سب کی تصدیق کرنا۔ 3۔ جن کاموں کا حکم دیا ہے، ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا۔ 4۔ ان چیزوں سے باز رہنا جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ 5۔ اللہ کی عبادت اُسی طریقے سے کرنا، جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع فرمایا ہے۔ سورۃ الاحزاب (آیت: ۴۵، ۴۶) میں ارشادِ ربانی ہے: { یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا}