کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 483
لیکن شرط یہ ہے کہ توبہ خالص ہو اور خالص توبہ یہ ہے کہ جس گناہ سے توبہ کررہا ہے، پہلے فوراً اسے ترک کرے، اس پر سخت ندامت کا اظہار کرے اور آیندہ اُسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔ اگر اس گناہ کا تعلق کسی بندے کے حقوق سے ہے تو بندے ہی اسے معاف کریں گے۔ اگر یہ صدقِ دل سے اللہ اور اس کے بندے سے معافی مانگے گا تو اللہ تعالیٰ تو غفور رحیم ہے۔[1] اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے جو اس کے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کرچکا، تو اپنی کتاب (لوحِ محفوظ) میں جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ ‘‘[2] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور اپنے پاس ان میں سے ننانوے حصے رکھے اور ایک حصہ زمین پر اتارا ہے، اسی کی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ لوگ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچے کو اپنے سم نہیں لگنے دیتی کہ کہیں اس سے بچے کو تکلیف نہ پہنچے۔[3] حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے۔ قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کی چھاتی دودھ سے بھری ہوئی تھی اور وہ دوڑ رہی تھی۔ اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا۔ اس نے جھٹ اپنے سینے سے لگایا اور اس کو دودھ پلانے لگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کی: نہیں، جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اللہ تو اپنے بندوں کے لیے اس ماں کے اپنے بچے کے لیے شفقت و رحم دل ہونے سے بھی زیادہ مہربان ہے۔‘‘[4]
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۵۲۱) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۴۰۶) [2] صحیح البخاري، باب التوبۃ، رقم الحدیث (۶۳۰۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۴۴) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۰۰۰) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۵۰) [4] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۴۱۶۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۵۵)