کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 46
{ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کوصرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ عبادت کسے کہتے ہیں؟ ہر انسان جو عاقل و بالغ ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کر کے اپنے ضمیر کو ٹٹولے اور اپنے آپ سے پوچھے کہ میں اس دُنیا میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں؟ مجھے ساری کائنات سے ممتاز کیوں بنایا گیا اور اس زمین پرمیری ڈیوٹی کیا ہے؟ انسان کی فوقیت و برتری اور ممتاز مقام کا ثبوت تو خود قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔ سورت بنی اسرائیل (آیت: ۷) میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ} ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔‘‘ تو کیا خیال ہے! ہم اس ذاتِ پاک کاشکر ادا نہ کریں جس نے ہمیں عزت بخشی، خوبصورت شکل اور قد و قامت عطا کی، ایک اور چیز بھی دی جو کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں اور وہ ہے عقل، یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو عطا کی ہے، اس کے علاوہ دوسری بے شمار نعمتیں بھی ہیں جو اس ذاتِ بابرکات نے اپنے بندے کو عطا فرمائی ہیں، مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ عبادت ایک جامع لفظ ہے جو اُن تمام ظاہری و باطنی اقوال و اعمال کو شامل ہے جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور جن سے خوش ہوتا ہے۔ نیز عبادت ان تمام چیزوں سے براء ت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی پسند و رضا کے منافی اور مخالف ہیں۔ لہٰذا عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی تذلل وعاجزی اور کمالِ خشوع کا اظہار کرنا۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’شریعت میں کمالِ محبت، خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام عبادت ہے۔‘‘ یعنی جس ذات کے ساتھ محبت ہو، اس کی مافوق الاسباب طاقت کے سامنے عاجزی و بے بسی کا اظہار ہو اور اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ کسی عمل کا عبادت میں اس وقت شمار ہوتا ہے جب اس عمل میں دو چیزیں جمع ہوں: 1.کمالِ محبت۔ 2. کمالِ عجز و انکسار۔ سورۃ البقرۃ (آیت: ۱۶۵) میںاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ} ’’جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘