کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 443
(( صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِيْ اُصَلِّیْ )) [1] ’’تم بعینہٖ اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ اس ارشادِ گرامی سے معلوم ہوا کہ ہماری نماز کی قولی و فعلی حالت ہو بہ ہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے نمونے کے مطابق ہونی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہماری نمازیں جتنی زیادہ ملتی ہوں گی دربارِ الٰہی میں شرفِ قبولیت بھی اتنا ہی زیادہ ملے گا اور پھر عمل کرنے کے لیے ہمارے پیشِ نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا وہ مسلک ہے جس میں ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جو رکوع و سجود ٹھیک سے ادا نہیں کر رہا تھا، جب وہ آدمی نماز سے فارغ ہوا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے بلا کر کہا: ’’تم نے نماز صحیح نہیں پڑھی اور اگر اسی طرح پڑھتے پڑھتے مر گئے تو طریقۂ اسلام کے خلاف مروگے۔‘‘ ایک دوسرے صحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو نمازِ عید سے پہلے نفل پڑھتے دیکھا تو اسے منع کیا۔ وہ شخص کہنے لگا: اللہ تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب نہیں کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تجھے سنت کی مخالفت کرنے پر ضرور عذاب دے گا۔‘‘ اتباعِ سنت کے معاملے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہی سوچ ہمارا مسلک ہے۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہی جذبہ ہمارا مذہب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک سنتوں کی کتنی قدر و قیمت اور اہمیت تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ مبارک سے آگاہ ہے: (( مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ )) [2] ’’جس شخص نے میری سنت اختیار کرنے سے گریز کیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ تو میرا خیال ہے کہ کوئی مسلمان اس فرمان کو پڑھ کر یا سن کر کسی بھی سنت کو معمولی اور غیر اہم
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۳۱) [2] صحیح البخاري، کتاب النکاح، صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، سنن الترمذي، کتاب الصوم، باب ما جاء في الرخصۃ في ترک صوم عاشوراء۔