کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 44
حیوانات کی پر ستش کرتے ہیں، ان میں سے کچھ تو گھوڑے کو پو جتے ہیں اور کچھ گائے (ہاتھی، بندر اور ناگ) کو۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زندہ اور مردہ انسانوں کی عبادت کرتے ہیں۔ بعض جنوں کی بندگی کرتے ہیں، بعض درختوں کو پوجتے ہیں اور بعض فرشتوں کی پر ستش کرتے ہیں۔‘‘[1] مذکورہ سابقہ آیت اور احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ دیواروں پر تصویروں کا لٹکانا اور مجالس اور میدانوں میں مجسمے نصب کرنا بہت خطرناک ہے، اس کی وجہ سے لوگ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تصویروں اور مجسموں کی تعظیم لوگوں کو ان کی پر ستش تک پہنچا دیتی ہے اور لوگ یہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ خیر لانے اور شر دور کرنے کا سبب ہیں، جیسا کہ قومِ نوح علیہ السلام میں ہوا۔ شیطان انسانوں کو گمراہ کرنے اور دھوکا دینے کے لیے بے حد حریص ہے، بسا اوقات وہ ان کے بھلے جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھا نے کی کوشش کر تا ہے، بھلائی کی بات پر ترغیب کے بہا نے گمراہ کرتا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ان نیک لوگوں سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے تو اس نے انھیں ان کی محبت میں غلو کی ترغیب دی، ان سے ان نیک لوگوں کے مجسمے نصب کروائے جس سے اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ راہِ صواب سے دور ہو جائیں۔ شرک کا انجام: لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کی منصوبہ بندی صرف موجود ہ نسل تک ہی محدود نہیں ہوتی، بلکہ آیندہ نسلوں کے لیے بھی ہوتی ہے۔ جب وہ حضرت نوح علیہ السلام کی نسل میں شرک داخل نہ کر سکا تو اس نے آپ کی قوم کی آنے والی نسلوں کو شرک میں مبتلا کرنے کی غرض سے اپنا جال پھینکا۔ خود اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن اولادِ آدم کو مرے ہوئے لوگوں کو سجدہ کروا رہا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کے واقعے میں شرک کے متعلق فرمایا ہے: { لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} [لقمان: ۱۳] ’’شرک مت کرو بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔‘‘
[1] إغاثۃ اللھفان (۲- ۲۱۸، ۲۱۹، ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۱، ۲۳۱، ۳۳۳)