کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 43
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
’’سلف میں سے کئی ایک نے کہا ہے کہ جب وہ (نیک لوگ) فوت ہو گئے تو انھوں نے ان کی قبروں پر ڈیرا ڈال لیا، پھر انھوں نے ان کے مجسمے بنا ڈالے، پھر کا فی مدت گزرنے کے بعد انھوں نے ان کی پر ستش شروع کردی۔‘‘[1]
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے مزید کہا ہے:
’’بتوں کی پوجا کے بارے میں شیطان نے ہر قوم کو اس کی سمجھ کے مطابق ہی بے و قوف بنایا ہے۔ ایک گروہ کو مُردوں کی تعظیم کے نام سے بتوں کی عبادت کی طرف بلایا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نیکو کار لوگوں کی تصویریں بنائیں، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے کیا۔ مشرکینِ عوام میں شرک کی ابتدا کا یہی سبب ہے۔ جہاں تک مشرکینِ خواص کا تعلق ہے، انھوں نے ان ستاروں کی شکل کے مجسمے بنائے، جن کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ وہ نظامِ عالم چلانے میں موثر ہیں، پھر ان مجسموں کے لیے انھوں نے گھر بنائے، مجاور اور دربان مقرر کیے اور ان پر چڑھاوے چڑھائے۔ قدیم زمانے سے لے کر اب تک شرک کی یہ صورت دنیا میں موجود ہے، اس کی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے دین قوم سے ہوئی جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شرک کے بطلان کے لیے مناظرہ کیا، اُن کی دلیل کو اپنے علم سے اور اُن کے معبودوں کو اپنے ہاتھوں سے توڑا، جواب میں انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلانے کا مطالبہ کیا۔ ایک گروہ نے چاند کی تصویر بنائی، انھوں نے یہ گمان کیا کہ یہ بندگی کا مستحق ہے اور عالمِ سفلی کا نظم و نسق یہی چلاتا ہے۔ دوسرے گروہ نے آگ کی پرستش کی، یہ لوگ مجوسی ہیں، انھوں نے آگ کے لیے گھر بنائے اور ان کے دربان و مجاور مقرر کیے، وہ ایک لمحے کے لیے آگ کو بجھنے نہیں دیتے۔ کچھ لوگ پا نی کی پو جا کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ پا نی ہر چیز کی اصل ہے، اسی سے ہر چیز کی پیدایش ہوتی ہے اور اسی سے نشو و نماہے۔ سب چیزوں کی ستھرائی و پاکیزگی اسی سے ہوتی ہے اور یہی عالم کی آباد کاری کا ذریعہ ہے۔ بعض لوگ
[1] إغاثۃ اللھفان (۲- ۲۰۲)