کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 422
مستدرک حاکم میں حضرت عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوے کی طرح ٹھونگے مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ ایسے نمازی کو نماز کابدترین چور کہا گیا ہے، جو نماز کی چوری کرتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نماز کی چوری کیسی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز کا رکوع و سجود پوری طرح ادا نہ کرنا نماز کی چوری ہے۔‘‘[1] لہٰذا رکوع و سجود خوب اطمینان سے ادا کرنے چاہییں۔ نماز کے لیے لباس اور عام طہارت کا حکم: سورۃ البقرہ (آیت: ۲۲۲) میں ارشادِ الٰہی ہے: { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ} ’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ سورۃ المدثر (آیت: ۴) میں فرمانِ الٰہی ہے: { وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ } ’’اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔‘‘ 1. لہٰذا نماز کے لیے سب سے پہلا عمل طہارت کا ہونا واجب ہے۔ یعنی غسل یا وضو سے طہارت حاصل کریں۔ 2. جسم اور کپڑے پاک صاف ہوں۔ 3. نیت خالص ہو۔ چونکہ ہر قسم کی عبادت کے لیے نیت کا ہونا ضروری ہے اور طہارت بھی ایک عبادت ہے لہٰذا اس کے لیے بھی نیت کا ہونا ضروری ہے، مگر یہ واضح رہے کہ نیت کا تعلق دل سے ہے۔ یعنی غسل ووضو اور نماز فرض ہو یا نفل ارادہ یعنی نیت دل ہی میں کرے اور زبان سے الفاظ ادا کرنے والے بسم اللہ کے ہوں اور یہ ہی صحیح اور افضل عمل ہے۔ پھر صحیح سنت کے مطابق وضو کے اعضا کو دھویا جائے۔ ایک سے لے کر تین بار تک دھونا جائز ہے اس سے زیادہ دھونا گناہ ہے اور ایک بار سر کا مسح کریں، ساتھ ہی کانوں کا مسح بھی ضروری ہے۔ اس طرح وضو مکمل کرنے کے بعد جس نے یہ کہا:
[1] مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث (۹۱)