کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 41
شرک کی ابتدا:
اس آیت میں اللہ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے۔ ان کی قوم نے سب سے پہلے غلو کرنا شروع کیاتو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا لیکن یہ شرک کا مرض تب سے لے کر آج تک مسلمانوں میں بڑھتا ہی چلاآرہا ہے۔
دنیا میں پہلے صرف توحید ہی تھی، شرک بعد میں پیدا ہوا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ (آیت: ۲۱۳) میں فرمایا ہے:
{کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ}
’’دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے، اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو خو شخبریاںدینے اور ڈرانے والے بناکر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں تا کہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ کریں جن میں انھوں نے اختلاف کیا۔‘‘
ایک اور جگہ سورت یونس (آیت: ۱۹) میں فرمایا:
{ وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا}
’’ اور تمام لوگ ایک ہی امت تھے، پھر انھوں نے اختلاف پیدا کرلیا۔‘‘
اختلاف ہمیشہ راہِ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس انحراف کا نتیجہ بغض و عناد ہوتا ہے۔ امتِ مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا، یہ امت اپنی اصل پر قائم رہی اور اختلافات کی شدت سے محفوظ رہی، لیکن تقلیدِ جامد اور بدعات نے جب حق سے گریز کا راستہ کھولا، تو اس سے اختلافات کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتاہی چلا گیا، تا آں کہ اتحادِ امت ایک نا ممکن چیز بن کر رہ گیا ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’’حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس صدیاں گزری ہیں اور وہ سبھی لوگ اسلام پر تھے۔‘‘[1]
شرک لوگوں کی اپنی ایجاد ہے۔ ورنہ پہلے پہل اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ تمام لوگ ایک ہی
[1] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۵۰)