کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 40
اس لیے جس طرح کانٹے بو کر انگور کی فصل حاصل نہیں کی جاسکتی، اُسی طرح بدی کا ارتکاب کر کے وہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا جو اللہ نے اہلِ ایمان کے لیے رکھا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہے کہ دینِ اسلام کیا ہے اور عبادت کسے کہتے ہیں؟ اصلاحِ عقیدہ کی اہمیت: دینی مسائل کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ ’’ایمانیات‘‘ کہلاتا ہے، جسے ہم عقائد کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ دوسرا حصہ ’’عبادات‘‘ کہلاتا ہے، ، جسے ہم ’’اعمال‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔ دینِ اسلام میں عقائد کو وہی حیثیت حاصل ہے جو بدن میں ریڑھ کی ہڈی کو اور درخت میں جڑ کو حاصل ہے۔ جس طرح ریڑھ کی ہڈی کے بغیر بدن بدن نہیں رہتا اور جڑ کے بغیر کوئی درخت زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح اگر عقیدہ درست نہ ہو تو سارے اعمالِ خیر اکارت جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین کے صوم و صلات اور اعمالِ خیر کی کوئی قیمت نہیں ہوگی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی چیز جس کی اصلاح کی جانی چاہیے، وہ عقائد کا مسئلہ ہے، مگر بد قسمتی سے عقائد پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی ملتِ اسلامیہ کی بنیاد اور دینِ اسلام کی اساس ہے۔ اسی پر امتوں کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ ہر امت کی بہتری اور سر بلندی اُس کے عقیدے کی سلامتی اور اس کے افکار کی درستی سے وابستہ ہے، اس لیے تمام انبیاء علیہم السلام نے عقیدے کی اصلاح کی دعوت دی ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا سابقہ آیت سے پتا چل رہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی دعوت کی ابتدا اسی طرح کی، چنانچہ سورۃ الاعراف (آیت: ۵۹) میں ارشادِ الٰہی ہے: {لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ} ’’ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے (ان سے) کہا کہ اے میری برادری کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمھارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا (بہت ہی) ڈر ہے۔‘‘