کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 354
موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ادھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ان سے درگزر سے کام لیا اور ان کے دلوں پر برابر دستک دیتے رہے کہ ہوسکتا ہے، وہ ایمان لے آئیں، لیکن یہ اللہ کا قانون ہے کہ جو جانتے بو جھتے، بات سمجھ میں آجانے کے باوجود حق کا انکار کرے، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔۔۔ یعنی پھر اس میں سچی بات ماننے کی صلاحیت ہی نہیں رہتی۔ وہ اس معاملے میں بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور یہود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے، جاننے اور پرکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر چکے تھے۔ اس لیے وہ بھی آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے ہوچکے تھے، سنتے کان رکھنے کے باوجود بہر ے ہوچکے تھے۔ ان کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کی انتہا اس وقت ہوئی، جب انھوں نے آپ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ہوا یوں کہ یہود کے قبیلے بنو نضیر کو اطلاع ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اہم معاملے میں بات چیت کرنے ان کے ہاں تشریف لارہے ہیں۔ تب انھوں نے ایسا منصوبہ بنایا جس سے ان کے خیال میں نَعُوْذ بِاللّٰہِ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام بھی تمام ہو جاتا اور ان پر الزام بھی نہ آتا۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کی مجلس میں تشریف لے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکان کی دیوار کے ساتھ بٹھا یا گیا۔ دوسری طرف طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک یہودی عمرو بن حجاش چکی کا بھاری پتھر لے کر چھت پر چڑھ گیا۔ اس نے دیوار کے اوپر سے پتھر کو لڑھکانا تھا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پتھر سے کچل دیے جائیں، لیکن اللہ اپنے رسولوں کی حفاظت فرماتا ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے اور کوئی ان پر غالب نہیں آسکتا۔ چنانچہ ابھی ابن حجاش چھت پر پہنچا ہی تھا کہ وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی اس سازش کے بارے میں بتا دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اپنی نشست سے اٹھ گئے اور مدینے کی طرف چل دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز ایسا تھا کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اہم کام یاد آگیا ہو اور ابھی واپس آجائیں گے، اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم وہیں بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کا انتظار کرنے لگے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاصی دیر کے بعد بھی واپس نہ آئے تو سب پریشان ہوکر واپس آگئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم