کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 333
ہوں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے فرشتے اتنی تعداد میں ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ساتویں آسمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، یہ ایک بیری کا درخت تھا۔ اس کے پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان ہوں۔ اس کے بیر بڑے کونڈوں یا گھڑوں جیسے تھے۔ پھر اس پر سونے کے پتنگے اور جو جو کچھ اللہ کو منظور تھا، چھا گیا۔ اس طرح بیری کا وہ درخت اس قدر خوب صورت ہوگیا کہ کوئی انسان اس کی خوب صورتی کو بیان نہیں کر سکتا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اس قدر قریب ہوئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احکم الحاکمین کے پاس لے جاکر شرفِ ہم کلامی سے نوازا گیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے پانچ نمازیں دن اور رات میں فرض فرمائیں جو اس سفرِ معراج کا تحفہ ہیں۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت ودوزخ بھی دیکھے اور اہلِ عذاب کے مختلف گروہ دیکھے: 1. یتیموں کا مال کھا نے والوں کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ آگ کے انگارے منہ سے کھاتے ہیں اور وہ آگ ان کی دبروں (جائے پاخانہ) سے نکلتی ہے۔ 2. سود خوروں کو دیکھا کہ ان کے پیٹ اتنے بڑ ھے ہو ئے ہیں کہ ان کی وجہ سے وہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر پاتے۔ 3. زانیوں کو دیکھا کہ وہ پاکیزہ گوشت کو چھوڑ کر بدبودار گوشت کھا رہے ہیں۔ 4. غیر محرم لوگوں کے سامنے بے پردہ جانے والی عورتوں کو اس حال میں دیکھا کہ وہ پستانوں کے بل لٹکائی ہوئی ہیں۔ اسی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی ہوئی، یہ سب کچھ ایک رات کے تھوڑے سے حصے میں ہوگیا۔ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا حال بیان فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ دکھایا، اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے سنایا تو قوم نے اس کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا۔ اس واقعے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا۔ کسی نے سن کر حیرت ظاہر کی اور کسی نے مارے حیرت کے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیا۔ کچھ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑے گئے۔ انھیں خبر دی کہ آپ کے دوست یہ کہہ رہے ہیں۔ حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی