کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 327
ہجرتِ حبشہ: ہجرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ واقعہ (ہجرتِ حبشہ) بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ سال بعد ماہِ رجب میں رونما ہوا۔ اس ہجرتِ اولیٰ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہرے داماد ذوالنورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں قافلہ حبشہ کی طرف روانہ ہوا۔ ان کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر زوجہ عثمان رضی اللہ عنہ حضرت رقیۃ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے بعد یہ پہلے افراد تھے، جنھوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی۔ ان لوگوں کو رات کے اندھیرے میں روانہ کیا گیا اور وہ اللہ کی مہربانی سے کامیاب ہوگئے اور یہ اس طرح حبشہ پہنچ گئے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا جو ان کے مظالم سے بچ سکے۔ جب مصیبت حد سے تجاوز کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی اور خود مکہ ہی میں قیام کیا کہ شائد اہلِ مکہ مستقبل میں راہِ راست پر آجائیں۔ سوشل بائیکاٹ: قریشِ مکہ نے جب دیکھا کہ اسلام کی دعوت مکہ سے نکل کر قرب و جوار اور حبشہ تک پہنچ گئی ہے، اور ادھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے اور مسلمانوں کی تعداد روز بروز تیزی سے بڑھ رہی تھی، ان حالات میں وہ ایک جگہ جمع ہوئے، آپس میں مشورہ کیا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب سے تمام تعلقات ختم کر دیے جائیں، اس طرح خاندانِ نبوت کا سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل و عیال سمیت ایک پہاڑی گھاٹی ’’شِعْبِ ابی طالب‘‘ میں پناہ لی اور اس میں تین سال تک محصور رہے۔ اس دوران میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کھانے کی جگہ پتوں سے پیٹ بھرنا پڑا۔ بچے بھوک سے بلبلاتے اور ظالم قہقہے مارتے رہے اور یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔[1] اس سوشل بائیکاٹ کی تفصیلات بڑی جانگداز ہیں اور اس ظالمانہ بائیکاٹ لکھنے والے شخص منصور بن عکرمہ اور زاد المعاد میں علامہ ابن القیّم کے بقول بغیض بن عامر بن ہاشم کو اللہ تعالیٰ نے یہ سزا دی کہ اس کا دستاویز لکھنے والا ہاتھ فالج زدہ (شل) ہوگیا۔[2]
[1] البدایۃ و النہایۃ (۳/ ۸۴) [2] زاد المعاد لابن القیم (۲/ ۴۶)