کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 277
اپنے آپ پر ظلم ہے بلکہ اولاد پر بھی ظلمِ عظیم ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { قُلْ اِِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَلاَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ} [الزمر: ۱۵] ’’کہہ دوحقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے، یاد رکھو! کھلم کھلا نقصان یہی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام اہلِ ایمان کو اپنے فضل وکرم سے اس خسارے سے محفوظ فرمائے اور اپنے پاک کلام قرآنِ کریم کو پڑ ھنے، اس کو سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں جذبہ پیدا فرما دے۔ آمین۔ بلاشبہ قرآنِ عظیم کا عامل جس فقید المثال جزا کا منتظر ہے، وہ جنت کے کئی درجات ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: { وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا} [الأنعام: ۱۳۲] ’’اور ہر ایک کے لیے ان اعمال کی وجہ سے درجے ہیں جو انھوں نے کیے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا نافرمانی کرنے والے کے لیے اس کے عمل کے مطابق منازل و مراتب ہیں۔ اللہ تعالیٰ صاحبِ عمل کو ٹھیک اس کے عمل کے مطابق ہی اس کے انجام و مقام تک پہنچائے گا۔ اگر اعمال اچھے ہیں تو اچھائی کے درجے ملیں گے، برے ہیں تو بر ے درجے ملیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ بندے کو ہمیشہ اعمال کے مطابق ہی نتائج و عواقب پیش آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم پر عمل کرنے والے شخص سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اسے پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا۔ سورۃ النحل (آیت: ۹۷) میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ} ’’جس نے نیک عمل کیے، مرد ہو یا عورت، جبکہ وہ مومن ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ہم انھیں ضرور ان کا اجر و ثواب (بدلہ) اس سے بہتر دیں گے جو وہ عمل کرتے تھے۔‘‘ پس ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ قرآن عظیم کے نور سے روشنی حاصل کرے، اس کے عقائد کے مطابق اعتقاد رکھے، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانے، اس کے احکام بجالائے، اس