کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 275
اس کی تلاوت، تحفیظ، تعلیم اور تدریس کے فوائد اور فضائل سے آگاہ نہیں۔ سورت یونس، (آیت: ۵۷) میں فرمانِ الٰہی ہے: {یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَتْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ} ’’اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور راہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔‘‘ یعنی جو قرآنِ کریم کو دل کی تو جہ سے پڑھے اور اس کے معانی و مطالب پر غور کرے، اس کے لیے قرآنِ کریم نصیحت ہے اور اس کے مواعظ کی مثال ڈاکٹر و طبیب کی طرح ہے جو مریض کو ان چیزوں سے روکتا ہے جو اس کے جسم وصحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ قرآنِ کریم بھی ترغیب و ترہیب دو نوں طریقوں سے وعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان نتائج سے آگاہ کرتا ہے، جن سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی صورت سے دو چار ہونا پڑے اور ان کاموں سے بھی روکتا ہے، جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہوسکتی ہے، یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائد کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی و پلیدی ہوتی ہے، اس کو صاف کرتا ہے۔ یہ قرآن مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے۔ ویسے تو یہ قرآنِ کریم سارے جہان والوں کے لیے ہی ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے، لیکن اس سے فیض یاب صرف اہلِ ایمان ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں صرف انہی کے لیے اسے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سورت بنی اسرائیل (آیت: ۸۲) میں فرمانِ الٰہی ہے: { وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا} ’’یہ قرآنِ کریم جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنون کے لیے تو سراسر شفا اور رحمت ہے مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔‘‘ کاش! ہم جان سکیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآنِ کریم عطا فرما کر ہم پر کتنا بڑا احسان کیا