کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 274
اسی دشمن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کئی مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعہ کو ذکر کیا ہے، اس میں شیطان اور ابنِ آدم کے مابین ان کے باپ آدم علیہ السلام سے لیکر تا ابد عداوت کے معاملے سے خبردار کیا گیا ہے ۔ یہ قصہ مختلف انداز سے اس لیے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان شیطان کی سرکشی اور اس کے شر سے اچھی طرح آگاہ ہو جائے اور شیطان کے جال سے بچ جائے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان میں سب سے بڑی نعمت قرآنِ مجید ہے حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی ساری برکتیں اور بھلائیاں سمیٹ کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن ِمجید کی صورت میں ہماری جھو لی میںمیں ڈال دی ہیں۔ قرآن ِمجید اپنے پڑ ھنے والوں کے لیے باعثِ سکینت، باعثِ رحمت، باعثِ ہدایت اور باعثِ شفا ہے۔ زندگی اور موت کے فتنوں سے پناہ مہیا کر نے والا اور زمین اور آسمانی آفات سے تحفظ فراہم کرنے والا ہے۔
انسانی زندگی کی کون سی حاجت اور مشکل ایسی ہے جس کا حل قرآنِ کریم نے پیش نہ کیا ہو ؟ کو ن سا درد یا روگ ایسا ہے جس کا علاج نہ بتایا ہو؟ کون سا ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ دیا ہو؟ اس دنیا کے بعد عالمِ برزخ میں بھی قرآنِ کریم اہلِ ایمان کے لیے باعثِ رحمت اور باعثِ نجات ہوگا۔
برزخ کے بعد آخرت میں بھی قرآنِ مجید اہلِ ایمان کے لیے باعثِ شفاعت، بلندی درجات کاذریعہ اور باعثِ عزت ہوگا۔ انسان قدم قدم پر قرآنِ مجید کا محتاج ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی کم و بیش نوے فیصد اکثریت قرآنِ کریم کے فضائل سے نا آشنا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں قرآنِ مجید کا تصور بس اس حد تک ہے کہ یہ ہماری مقدس کتاب ہے جسے چھونے سے قبل وضو کرنا چاہیے، یا اس کو پکڑتے ہی چومنا اور آنکھوں پر لگانا ضروری ہے یا پھر شادی بیاہ کے موقع پر بیٹیو ں کو ہدیہ دینا، یا گھر سے رخصت کرتے ہوئے اس کے سائے سے گزارنا، لڑائی جھگڑے کے موقع پر قسم کھانا اور گواہی کے لیے استعمال کرنا، جنات دور کرنے کے لیے اس کی سورتوں کا عمل کرنا، یا اس کا تعویذ بنانا، اس سے فال نکالنا، یا پھر ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا، کیا یہی اس کے اصل مقاصد ہیں، جن کے لیے قرآنِ کریم نازل کیا گیا ہے؟ مسلمانو! ایسا ہر گز نہیں، قرآنِ کریم ان کاموں کے لیے نہیں نازل کیا گیا، بلکہ قرآنِ کریم اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ ہم اس کو پڑ ھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں، لیکن ہماری غفلت اور بے پروائی کا عالم یہ ہے کہ ہم