کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 267
کو چھوڑ کر بیت اللہ کو اپنا قبلہ نہ بناتے؟ 2. انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب کے لیے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً} [البقرۃ: ۲۴۵] ’’کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ اللہ اسے دگنا، چوگنا کرکے واپس کر دے۔‘‘ تو ان لوگوں نے اس آیت کا مذاق یوں اڑایاکہ لیجیے صاحب! اب اللہ میاں بھی غریب ہو گئے اور قرض ما نگنے لگے۔ 3. جہنم کے داروغوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جب سورۃ المدثر کی آیت (۳۰) نازل فرمائی: { عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَرَ} ’’جہنم پر انیس داروغے مقرر ہیں۔‘‘ تو ابو جہل نے اس کا مذاق یوں اڑایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار تو صرف انیس ہیں، ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دس دس یا سو سو آدمی بھی ایک داروغہ پر غالب آئیس تو کافی ہوں گے۔ ایک دوسرے کا فر نے ٹھٹھا لگا کر کہا: ’’تم لوگ دو کو سنبھال لینا باقی سترہ کے لیے میں اکیلا کافی ہوں۔‘‘ کفار و مشرکین اور منافقین کی یہ روش آج بھی جاری ہے۔ آیاتِ حدود کا مذاق، آیاتِ حجاب کا مذاق، آیاتِ تعددِ ازواج کا مذاق، آیاتِ قیامت کا مذاق اور آیاتِ عذاب کا مذاق، قرآنی آیات کے علاوہ بعض دیگر شرعی احکام مثلاً ڈاڑھی، شرعی لباس، برقعہ، مسجد، مدرسہ اور نماز وغیرہ کا مذاق اڑانا تو اب ایک خاص طبقے کا فیشن بن چکا ہے، لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ قرآنِ کریم کی کسی آیت، حکم، قانون یا فیصلے کا مذاق اڑانا نواقضِ اسلام میں سے ہے اور ایسا کرنے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ پس اے اہل ایمان! اللہ تعالیٰ سے ڈر جائیں، اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے شوقِ فضول میں اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی بے ادبی یاگستاخی نہ کر بیٹھنا، نہ اللہ کی آیات اور احکام کا مذاق اڑانے والوں سے کوئی تعلق یا میل جول رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا میں ذلت اور رسوائی مقدر بن جا ئے اور آخرت میں حسرت و ندامت کے ساتھ روشن خیا ل لوگوں کی دوستی پر یہ کہہ کر آنسو بہا نے پڑیں: { قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ} [الزخرف: ۳۸] ’’کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی (تو) بہت برا ساتھی ہے۔‘‘