کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 252
آیات سیکھ لیتے تھے تو اس وقت تک ان سے آگے نہ بڑھتے جب تک کہ ان آیات کے علم و عمل کو نہ سیکھ لیتے۔ انھوں نے کہا: اسی طرح ہم نے پڑھا اور علم و عمل سیکھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب کوئی سورت بقرہ اور سورت آل عمران پڑھ لیتا تھا تو وہ ہماری نظروں میں جلیل القدر آدمی ٹھہرتا تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے صرف سورت بقرہ کے حفظ کرنے میں آٹھ برس صرف کر دیے تھے۔[1] ظاہر ہے یہ آٹھ برس محض الفاظ یاد کرنے پر صرف نہیں ہوئے تھے، بلکہ یہ قرآن کی حکمت، اس کے حقائق و معارف جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے پر صرف ہوئے تھے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر بھی اسے جاری کیا اور پڑھایا، اسی طرح اس کے معانی و مطالب کی بھی تعلیم دی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {ثُمَّ اِِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ} [القیامۃ: ۱۹] ’’پھر اس کا بیان اور توضیح بھی ہمارے ہی ذمے ہے۔‘‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حکمت بھی اتاری گئی، تنہا قرآن نہیں اتارا۔ صحابہ کرام علیہم السلام نے اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پڑھنا، اس کے معانی و مطالب سمجھنا اور اس پر عمل کرنا سیکھا۔ قرآن مجید کے بے حد و حساب فضائل نے صحابہ کرام علیہم السلام میں قرآنِ کریم کی تلاوت، تحفیظ، تدریس اور تعلیم کا ایسا والہانہ جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ بیشتر صحابہ کرام علیہم السلام نے اپنی زندگیاں قرآن مجید کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔ 6. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بچپن ہی میں دولت ِ ایمان سے بہرہ ور ہوگئے تھے۔ ایمان لانے کے بعد سفر و حضر میں سائے کی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے اور قرآن مجید سیکھنے میں گہری دلچسپی لیتے۔ ایک رات دورانِ نماز اونچی آواز میں تلاوت کر رہے تھے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور کھڑے ہو کر تلاوت سنتے رہے، پھر صحابہ کرام علیہم السلام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ’’جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ قرآنِ کریم کو اسی لہجے میں پڑھے جس میں وہ نازل ہوا ہے
[1] مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ (۱۳- ۳۳۱)