کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 240
ہیں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ اس اجر و ثواب میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ ان کا اجتماع مسجد میں ہو یا اس کے باہر کسی مدر سے یا گھر میں ہو، جو شخص بھی اس مبارک و مسعود مجلس میں حاضر ہو تا ہے وہ چار عظیم انعامات حاصل کرتا ہے: 1 تلاوتِ قرآن کریم اور اس میں تدبر کرنے کے لیے جمع ہو نے والوں کو جو پہلا انعام اور تحفہ دیا جاتا ہے، وہ ان پر نزولِ سکینت ہے جو طمانیت اور دلی راحت و سکون کا نام ہے۔ سکینت سے مراد ایسا سکون اور طمانیت ہے جس سے دل پوری طرح مطمئن ہو جاتا ہے اور اسے وحشتوں سے سکون میسر آجاتا ہے۔[1] اکثر اوقات دل حزن و ملال سے بھرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جن کے دل ودماغ میں رنج نے آشیانہ بنا لیا اور وہ اپنے غموم و آلام سے نجات پانے کے لیے دم بدم نفسیاتی بیماریوں کی علاج گاہوں میں پناہ لیتے ہیں؟ وہ ان مجلسوس سے دور کیوں ہیں جن کے شرکا پر سکینت نازل ہو تی ہے؟ ان کے لیے ایک ہی راہِ نجات ہے کہ وہ نافرمانیوں سے بچیں، گناہوں کی زندگی ترک کر دیں اور راحت و سکینت کی ان نورانی محفلوں میں آبیٹھیں جہاں قرآنِ کریم کی تعلیم دی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنے دلوں سے گناہوں کی آلایش دھو ڈالیں، اپنے آپ کو پاکیزہ اور مطہر بنالیں اور تکالیف سے راحت اور سکون حا صل کرلیں۔[2] 2 تلاوت و تدبرِ قرآن پر جو دوسرا انعام دیا جاتا ہے وہ ہے رحمتِ الٰہی۔ رحمت اہلِ قرآن کے قریب ہے بلکہ وہ ان مجالس کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہے جسے اہلِ دنیا جمع کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: { وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ} [الزخرف: ۳۲] ’’اور آپ کے رب کی رحمت اس سے بہت بہتر ہے، جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے اور اس نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے واضح ہے:
[1] تحفۃ الأحوذي (۸/ ۱۵۶) [2] أنوار القرآن (ص: ۱۰۷، ۱۰۸)