کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 165
تاہم پیغمبر شرک سے محفوظ ہوتے ہیں، اس کا مقصد صرف امتوں کو شرک کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔ ریا کاری اور دکھلاوے: اسی طرح میری پیاری بہنو (اور بھائیو!) آپ کے سامنے ایک چیز اور بھی ذکر کرنا ضروری ہے جو شرکیہ امور میں سے ہے۔ وہ ہے عبادت میں ریا کاری، جبکہ مسلمان کی ہر قسم کی عبادت خالص اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، کیونکہ اخلاص کا یہ آئینہ تو اتنا زیادہ نازک ہے کہ غیر کا سایہ پڑتے ہی چور چور ہوجاتا ہے، چنانچہ ریا کاری اور دکھلاوے تک کو برداشت نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکِ اصغر سے تعبیر فرمایا ہے: (( اِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ، قَالُوا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا الشِّرْکُ الْأَصُغَرُ؟ قَالَ: الرِّیَائُ )) [1] ’’بلاشبہہ میں تمھارے سلسلے میں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف محسوس کرتا ہوں، وہ شرکِ اصغر ہے، لوگوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! شرکِ اصغر کیا ہے؟ فرمایا: وہ ریا ہے۔‘‘ ایک حدیث قدسی میں ہے: (( أَنَا أَغْنَیٰ الشُّرَکَآئِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِيْ غَیْرِيْ تَرَکْتُہٗ وَ شِرْکَہٗ )) [2] ’’میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں، لہٰذا جس نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ غیر کو شریک کیا تو میں اس کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ یہاں تک کہ ریا کاری کا بڑا بھیانک انجام بتایا گیا ہے۔ صحیح مسلم میںحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزِ قیامت سب سے پہلے جن کا فیصلہ کیا جائے گا، ان میں سے ایک شہید ہوگا۔
[1] مسند أحمد (۵/ ۱۴۲۹) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔ دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، رقم الحدیث (۹۵۱) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۸۵)