کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 163
نہیں، کیونکہ ہمیں تو خیر الامت کے لقب سے نوازا گیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس انعامِ الٰہی کو یہودیوں کی طرح اپنی بد عملیوں اور شرک و بدعات کا ارتکاب کرکے کھو دیں اور خیر الامت کے بجائے شر الامت بن جائیں۔ ہَدَانَا اللّٰہُ تَعَالَیٰ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکوں کے پاس اپنے مشرکانہ اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایک بھی ٹھوس اور پختہ دلیل نہیں، ان کی کیفیت تو وہی ہے جو سورۃ المومنون (آیت: ۱۱۷) میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے: { وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰھًا اٰخَرَ لاَ بُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ} ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں۔‘‘ شرک کی اساس کسی برہان ودلیل پر نہیں، جبکہ توحید کی بنیاد قطعی براہین اور واضح دلائل پر ہے، جیسا کہ سورت ابراہیم (آیت: ۱۰) میں ارشادِ الٰہی ہے: { اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ} ’’کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنا نے والا ہے۔‘‘ سورۃ البقرہ (آیت: ۲۲) میں بھی فرمانِ الٰہی ہے: { فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} ’’خبردار! باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مت مقرر کرو۔‘‘ ظلم کی تمام اقسام میں سب سے سنگین قسم شرک ہے، چنانچہ سورت لقمان (آیت: ۱۳) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} ’’بے شک شرک ظلمِ عظیم ہے۔‘‘ جس کی موت شرک پر ہوئی اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معانی نہیں، جیسا کہ سورۃ النساء (آیت: ۴۸) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ} ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ وہ جس کو چاہتے ہیں معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘