کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 158
آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بے بسی اور بے وفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کاش! یہ لوگ دنیا ہی میں شرک سے توبہ کرلیں۔ آج اگر کسی بھی اہلِ بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آبا و اجداد سے چلی آرہی ہے، لیکن شریعت کے مقابلے میں آبا پرستی یا اپنے ائمہ و علما کی پیروی غلط ہے۔ جن لوگوں نے تقلیدِ آبا و اجداد میں اپنی عقل و فہم کو معطل کر رکھا ہے، ان کی مثال اُن جانوروں کی طرح ہے جن کا ذکر اسی سورت (آیت: ۱۷۱) میں آیا ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی کو سنتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انھیں کیوں بلایا اور پکارا جا رہا ہے؟ اسی طرح یہ اندھے مقلدین بھی بے عقل ہیں کہ دعوتِ حق اور دعوتِ توحید و سنت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو شرک اور بدعات کی دلدل سے نکالے، آمین۔لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پاگیا ہو، ان کے کان حق بات سننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ پیٹ کے کچھ پجاریوں نے انھیں مغالطے میں ڈال دیا ہے اور کہتے ہیں کہ دیکھو! جب ہم بیمار ہوجاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں، بیوی سے مدد چاہتے ہیں، دوست، رشتے داروں سے روپے سے مدد حاصل کرتے ہیں، ڈرائیوروں اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں، اس طرح یہ باور کرواتے ہیں کہ اللہ کے سوا دوسروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے، جس میں سارے کام ظاہری اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں اور یہ کام کرنے والا ان پر قادر ہے، حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام بھی اپنی امت کے لوگوںسے مدد حاصل کرتے تھے، جیسا کہ سورۃ الصف (آیت: ۱۴) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: { مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ} ’’اللہ (کے دین) کے لیے کون میرا مدد گار ہے؟‘‘ اسی طرح سورۃ المائدہ (آیت: ۲) میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو فرمایا ہے: { وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی} ’’نیکی اور تقوے کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘